معارف مثنوی اردو شرح مثنوی مولانا روم |
س کتاب ک |
|
نام’’فِیْہِ مَافِیْہِ‘‘ہےاور پچاس ہزار اشعار کا ایک دیوان ہے، جس کو بہت سے لوگ غلطی سے حضرت شمس تبریز رحمۃ اللہ علیہ کا دیوان سمجھتے ہیں۔ اس مغالطے کی بنا یہ ہے کہ اکثر مقطع میں شمس تبریز رحمۃ اللہ علیہ کا نام ہے۔ تیسری چیزمثنوی ہے اور اسی کتاب سے مولانا کا نام زندہ ہے۔ مناسب معلوم ہوتاہے کہ نہایت اختصار کے ساتھ مثنوی کی کچھ خصوصیات لکھ دی جاویں تاکہ ایک بصیرت حاصل ہوجائے۔خصوصیاتِ مثنوی دولتِ غزنویّہ کے آخرمیں حکیم سنائی نے حدیقہؔ لکھی جو نظم میں تصوّف پرپہلی کتاب ہے۔ حدیقہؔ کے بعد خواجہ فریدالدین عطار رحمۃ اللہ علیہ نے متعدد مثنویاں لکھیں جن میں سے منطقؔ الطّیرنے زیادہ شہرت حاصل کی ، ایک دن خاص کیفیت میں مولانا کی زبان سے بے ساختہ مثنوی کے ابتدائی اشعار نکل گئے۔ پھر حسام الدین چلپی رحمۃ اللہ علیہ نے اصرار کیا کہ مثنوی پوری کی جائے چناں چہ مولانا نے پورے چھ دفتر لکھ ڈالے۔ اگرچہ درمیانِ تصنیف میں وقفے اور فاصلے پڑتے گئے۔ چناں چہ مثنوی میں بہت کثرت سے ایسے اشعارپائے جاتے ہیں جن میں مولانا حسام الدین چلپی رحمۃاللہ علیہ کا باعثِ تصنیف ہونا معلوم ہوتاہے۔ بعض دفتروں میں مولانا نے تاخیر کے نہایت لطیف وجوہات بیان فرمائے ہیں مثلاً: مدّتے ایں مثنوی تاخیر شد مہلتے بایست تا خوں شِیر شد تا نزاید بختِ نو فرزندِ نو خوں نگردد شیر شیریں خوش شنو یہ مثنوی ۶۶۲ھ میں شروع ہوئی ہے جو خود مثنوی کے ایک شعر سے ظاہرہے ؎