معارف مثنوی اردو شرح مثنوی مولانا روم |
س کتاب ک |
|
محوی باید نہ نحو ایں جا بداں گر تو محوی بے خطر در آب راں ترجمہ:یہاں تو محو چاہیے نہ کہ نحو، اگر تو محوی ہے تو بے خطر پانی میں راستہ طے کر ۔ آبِ دریا مردہ را بر سر نہد ور بود زندہ ز دریا کے رہد ترجمہ : دریا کا پانی مردے کواپنے سر پر رکھتاہے اور زندہ غرق ہوجاتاہے یعنی اپنے کو مٹانے اور فناکرنے سے اللہ کاراستے طے ہوتاہے۔تکبر والے محروم اور غرقِ آبِ ہلاکت ہوتے ہیں۔ فائدہ : پس حق تعالیٰ کے راستے میں محویت کام دیتی ہے۔ محض قیل وقال سے کام نہیں چلتا بلکہ بعض اوقات اس قیل وقال سے ناز و پندار پیدا ہوجاتاہے جو اہل اللہ سے تعلق پیدا کرنے میں عار کا سبب ہوجاتاہے۔ حق تعالیٰ ایسی محرومی سے محفوظ فرمائیں۔ آمین۔ اور ہم کو فنائیتِ کاملہ عطا فرمائیں۔ فنائیت کیا چیز ہے؟ احقر نے اپنے شیخ و مرشد سے یہ سوال کیا تھا۔ ارشاد فرمایا کہ اپنے کو مٹادینا یا فانی فی اللہ ہوجانا۔ ان اصطلاحات کا مفہوم یہ ہے کہ بندہ اپنی ان مرضیات اور خواہشات کو جو اللہ تعالیٰ کی مرضیات اور احکام کے خلاف ہوں ترک کردے پس اسی کانام فنائےنفس ہے، ابتدائےسلوک میں یہ عمل مجاہدے اور مشقت سے ہوتاہے اور انتہائےسلوک میں مرضیاتِ الٰہیہ پر عمل کرنا طبیعتِ ثانیہ بن جاتی ہے۔انکار کرنافلسفی کاآیت اِنْ اَصْبَحَ مَآؤکُمْ غَوْرًاسے ایک قاری نے قرآنِ پاک سے جب اس آیت کی تلاوت کی: اِنۡ اَصۡبَحَ مَآؤُکُمۡ غَوۡرًا ؎ ------------------------------