معارف مثنوی اردو شرح مثنوی مولانا روم |
س کتاب ک |
|
اب مولانا فرماتے ہیں کہ اے لوگو! تم نے ایک نوع آنسوؤں کی ابھی دیکھی جوروٹیوں سے بھی کمتر ہے اور اب اولیائے پاک کے آنسوؤں کا مقام سنوکہ جب ہمارا مرشدِ پاک شمس تبریزی رحمۃ اللہ علیہ روتاہے تواس کے اخلاص ودرد کی تاثیر سے آسمان بھی رونے لگتاہے اور جب ہمارا مرشد آتشِ عشقِ حقیقی سے نالہ وفغاں کرتاہے تو فلک بھی لرزہ بر اندام ہوکریارب یارب کرنے لگتاہے۔ دست اشکستہ بر آرد در دعا سوئے اشکستہ پر و فضلِ خدا اورہمارا شمس تبریزیؔ نہایت بے کسی و تضرع سے دعا کرتاہے اور شکستہ (ٹوٹے ہوئے دلوں) کی فریاد کی طرف خداکا فضل اڑکرآجاتاہے اور شرفِ قبولیت عطاکرتاہے۔حکایتِ ایازو حاسدین شاہ محمود کے ایک مقرب درباری غلام ایازؔ نے ایک حجرہ تعمیر کیا اور اس میں اپنی گدڑی اور پرانی پوستین لٹکادی اور اس حجر ے کو مقفل رکھتاتھا اور تنہاجاکر کبھی کبھی اپنی پھٹی پرانی گدڑی اور پوستین کو دیکھ کررویاکرتااور کہتاکہ اے اللہ! میں ایک غریب خاندان کا لڑکا تھا اور اس پھٹی حالت میں تھاکہ میرا لباس یہ تھاکہ جسے آج میں حیا و شرم سے مقفل رکھتاہوں یعنی دوسروں کے سامنے پہننا تو درکنار دوسروں کودکھانااور دوسروں کے علم میں لانابھی اپنی توہین اور ننگ سمجھتاہوں اور اپنے کو سمجھایاکرتھاکہ اے ایاز! تو اب مقرب بارگاہِ سلطان ہے،اس شان و شوکت پر ناز نہ کرناکہ تیری حقیقت صرف یہی پوستین اور گدڑی ہے۔ عمائد اور وزراء اس راز سے بے خبر تھے، وہ ایازکو اس حجرے کی طرف آتے دیکھتے اور طرح طرح کی قیاس آرائیاں کرتے۔ ایک دن تمام اراکینِ سلطنت جمع ہوکر تبادلۂ خیال کرنے لگے کہ ایازؔ تنہااس حجرے میں کیوں جاتاہے اور اس کو مقفل بھی رکھتاہے ، اس قفلِ گراں کی کیاضرورت ہے۔ شاہ اس کو عاشق اور درویش سمجھتاہے اور یہ شاہ کی دولت اس حجرے میں مخفی کررہا