معارف مثنوی اردو شرح مثنوی مولانا روم |
س کتاب ک |
|
ہوجانے پردھونے کودل میں تقاضانہیں ہوگا۔ ان ہی مصالح کے پیشِ نظراللہ والے سالکین کو پہلے ہی ذکرشروع کرادیتے ہیں۔ اسی کی برکت سے آہستہ آہستہ سب اصلاحات شروع ہوجاتی ہیں۔حکایت کہ ہمارا اللہ کہنا لبیکِ خدا ہے آں یکے اللہ می گفتے شبے تاکہ شیریں گردد از ذکرش لبے ایک صوفی درویش ایک رات بہت ہی اخلاص سے اللہ کانام لے رہاتھاحتّٰی کہ اس پُرخلوص ذکرسے اس کے لب شیریں ہوگئے۔ شیطان نے کہااے صوفی!خاموش بھی ہوتوبے فائدہ ذکرکی کثرت کررہا ہے۔ اللہ کی طرف سے توکوئی جواب تجھے ملتانہیں،پھریک طرفہ محبت کی پینگ بڑھانے سے کیافائدہ؟ شیطان کی اُن پرفریب باتوں سے یہ صوفی شکستہ دل اورافسردہ ہو کر سوگیا اور ذکرملتوی کردیا۔ خواب میں دیکھتاہے کہ حضرت خضرعلیہ السلام تشریف لائے ہیں اور دریافت کررہے ہیں کہ ذکرسے کیوں غفلت کی۔ صوفی نے کہاکہ اللہ کی طرف سے لبیک کی آواز نہیں آتی جس سے دل میں خیال آیاکہ ہماراذکرقبول نہیں۔ حضرت خضرعلیہ السلام نے کہاکہ تجھ کواللہ نے یہ پیغام بھیجاہے اورفرمایاہے کہ میرے اس بندے سے کہہ دوکہ گفت آں اللہ تو لبیکِ ماست واں نیاز و سوز و دردت پیکِ ماست اے بندہ!تیرااللہ کہناہی میرا لبیک ہے یعنی جب تیراپہلااللہ قبول ہوجاتاہے تب دوسری بارتجھے اللہ کہنے کی توفیق ہوتی ہے پس یہ دوسری بار اللہ کہنامیری طرف سے لبیک ہے اوراے بندہ! تیرایہ نیاز اور میرے عشق میں یہ سوزودردسب میراپیغام ہے۔