معارف مثنوی اردو شرح مثنوی مولانا روم |
س کتاب ک |
|
در تحقیق کہ انسان اعمال میں مجبور نہیں جبر بودے کے پشیمانی بُدے ظلم بودے کے نگہبانی بُدے جبر ہوتاتو پشیمانی کب ہوتی اور ظلم ہوتا تو نگہبانی کب ہوتی۔ مطلب یہ ہے کہ جبر ہوتا اور کچھ اختیار بندے کا اپنے اعمال میں نہ ہوتا تو پھر مافات پر پریشانی کیوں ہوتی ہے کہ افسوس!یہ کیوں کیا،انسان سمجھتا کہ میں تو مجبور تھا میں کیا کروں جو ایسا ہوگیا۔ پس اس پشیمانی ہونے ہی سے معلوم ہوا کہ بندہ اعمال میں مجبور نہیں بلکہ مختار ہے۔ اسی طرح اگر ظلم ہوتا تو اللہ تعالیٰ نگہبانی کیوں فرماتے کہ کہیں فرشتے حفاظت کے لیے مقرر فرماتے ہیں اور کہیں اعضا نگہبانی کے لیے دیے جاتے ہیں۔حقیقتِ نفس نفسہا را لائق است ایں انجمن مردہ را در خور بُوَد گور و کفن نفوس کے لیے یہی انجمن یعنی دنیا لائق ہے کہ گور و کفن مردے ہی کے مناسب ہے، زندہ کوکوئی گور و کفن نہیں دیتا۔ اسی طرح یہ دنیا بھی نفس ہی کے مناسب ہے۔ روح کا یہ مسکن نہیں ہے۔ نفس اگرچہ زیرک است و خورد داں قبلہ اش دنیا است اورا مردہ داں یعنی نفس اگرچہ باریک باتوں کو جاننے والا اور ہوشیار ہے لیکن اس کا قبلہ چوں کہ دنیا ہی ہے۔ اس لیے وہ بمنزلہ مردہ ہی کے ہے۔ اس کی زیر کی اور ہوشیاری کو زندگی نہ کہیں گے کیوں کہ اس کو حیاتِ اصلی حاصل نہیں ہے۔ پس نفس بمنزلہ مردہ ہی ہے۔ آگے بعض نفوس کو مستثنیٰ فرماتے ہیں۔