معارف مثنوی اردو شرح مثنوی مولانا روم |
س کتاب ک |
|
عظمتِ شانِ عشقِ حقیقی وکیفیاتِ احوالِ باطنی بر کفِ من نہ شرابِ آتشیں بعد ازیں کر و فرِ مستانہ بیں اے اللہ !میرے ہاتھ پرشرابِ آتشیں(شرابِ محبت ومعرفت) رکھ دیجیے یعنی اپنی محبت کاایک ذرّہ درد ہماری جان میں ڈال دیجیے پھرہماری مستی و دیوانگی کا تماشا آپ دیکھیں ؎ تو نیز بر سرِ بام آکہ خوش تماشائے ست بادہ در جوشش گدائے جوشِ ما ست چرخ در گردش اسیرِ ہوشِ ما ست شرابِ دنیا کی فانی مستی وبے خودی عارفینِ حق کی دائمی جوش ومستی کے سامنے مثل گداومحتاج ہے۔ چناں چہ جس وقت روئے زمین پراللہ اللہ کرنے والے نہ رہیں گے توقیامت آجاوے گی، اس وقت اہلِ دنیا لذاتِ دنیا سے محروم ہوجاویں گے ۔پس کافروں کا تمام ترعارضی عیش حتّٰی کہ ایک ٹکڑا روٹی اورایک گھونٹ پانی کا ملنا بھی تقریرِ مذکور کی بناء پر اللہ والوں ہی کے وجود اور ان ہی کے دم پر موقوف ہے اور آسمان اپنی گردش کے وسیع دائرے کے باوجود ہمارے ہوش کا قیدی ہے اورقیدی قید خانہ سے چھوٹا ہوتاہے پس مؤمن کی روحانی وسعت کے سامنے ہفت آسمان بھی کمتر اور بے قدر ہے۔ حضرت خواجہ مجذوب صاحب رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں ؎ عجب کیا گر مجھے عالم بایں وسعت بھی زنداں تھا میں وحشی بھی تو وہ ہوں لامکاں جس کا بیاباں تھا حدیثِ قدسی میں ہے کہ میں نہیں سمایا آسمانوں میں اور زمینوں میں لیکن مؤمن کے دل میں مثلِ مہمان کے جلوہ گرہوجاتاہوں ؎ در دلِ مؤمن بگنجیدم چو ضیف امانتِ الٰہیہ کوآسمانوں اورزمینوں نے اٹھانے سے بوجہ ضعفِ تحمل ڈر کر انکار کردیا: