معارف مثنوی اردو شرح مثنوی مولانا روم |
س کتاب ک |
|
کہ حضرت عارف رومی رحمۃ اللہ علیہ نے مثنوی میں ایک دوسری جگہ ارشاد فرمایاہے ؎ گفتگوئے عاشقاں در کارِ رب جوششِ عشق است نے ترکِ ادب پس نصیحت کرتے وقت اعتدال کو ملحوظ رکھنا چاہیے۔ اتنا زجر وعتاب نہ کرے کہ مایوسی پیدا ہوجائے اور حضرت موسیٰ علیہ السلام کے لیے اس مجذوب کے اقوال پر بوجۂ صاحبِ شریعت ہونے کے نفسِ عتاب ضروری تھا۔ تنبیہِ حق کا مقصد تعلیم سے روکنا نہ تھا بلکہ طریقۂ تعلیم کی اصلاح تھی۔ اس لیے جہال صوفیا کا اس واقعے سے علمائے شرع کی نکیر اور اصلاح سے نہ تو گریز جائز ہوگا اور نہ اپنے کو علمائے شریعت سے افضل سمجھنا۔ علماء کا مقام بڑا مقام ہے خدائے تعالیٰ کے یہاں۔قصّۂ حضرت لقمان حضرت لقمان علیہ السلام کسی رئیس کے یہاں نوکری کرتے تھے۔ اللہ تعالیٰ کی محبت اور معیت سے ان کے اندرایسے پاکیزہ اور عالی اخلاق وعادات موجود تھے جو انسانیت کی رفعت وشرافت ومقبولیت عند اللہ کے صحیح مصداق تھے اور جن کی تفصیل وتشریح حق تعالیٰ شانہٗ نے سورۂ لقمان میں بیان فرمائی ہے۔ حضرت لقمان علیہ السلام کے ان اخلاقِ عالیہ کا ان کے آقا پر گہرا اثر ہوا یہاں تک کہ اس رئیس نے ان کو اپنا مقرب ومحبوب بنالیا اور خود ان کا محبّ اور باطناً غلام بن گیا ؎ از محبت شاہ بندہ می شود (رومیؔؒ ) یہ محبت کی کرامت ہے کہ محبت سے بادشاہ اپنے محبوب کاغلام بن جاتاہے۔ پھر اس رئیس کا یہ معمول ہوگیا کہ ہر نعمت کھانے سے پہلے حضرت لقمان علیہ السلام کی خدمت میں پیش کرتا اور جب لقمان علیہ السلام آسودہ ہوکر کھالیتے تو بچا ہوا یہ رئیس کھاتا۔