معارف مثنوی اردو شرح مثنوی مولانا روم |
س کتاب ک |
|
عاقل اندر بیش و نقصان ننگرد زانکہ ایں ہر دو چو سیلے بگزرد عاقل انسان نفع و نقصان، کمی و بیشی سے اس درجہ خائف نہیں ہوتا جو عقل و حواس میں فتور پیداکردے یااعمال اور اخلاق کو اعتدال سے دور کردے(البتہ کچھ طبعی تاثرکاہونا بمقتضائے بشریت کچھ مضر نہیں بلکہ بوجہ مجاہدہ ترقی درجات کا سبب ہوتاہے ) اور کمی وبیشی کے سیلاب کوآنی جانی چیز سمجھتاہے۔جس طرح سمندر میں مد و جزر ہوا ہی کرتاہے۔سیلاب چڑھتاہے تواترتابھی ہے۔ گر بریزی بحر را در کوزۂ چند گنجد قسمتے یک روزۂ اے مخاطب! اگرتوحرص کے سبب سمندر کوایک کوزے میں بھرناچاہے گا تو اس کوزہ میں ایک ہی دن کا حصہ آسکے گا اس لیے حرص کافائدہ بجز ذہنی انتشار اور فقدانِ جمعیت کے اورکچھ نہیں۔ کوزۂ چشمِ حریصاں پُر نہ شد تا صدف قانع نہ شد پُر در نہ شد حریصوں کی آنکھیں کبھی سیرنہیں ہوتی ہیں(جس کے نتیجے میں ایسے لوگ ہمیشہ بے سکون رہتے ہیں) حالاں کہ ان کو صدف سے سبق حاصل کرناچاہیے کہ وہ بارش سے صرف ایک قطرہ لیتاہے اورمنہ بند کرلیتاہے اور اس قناعت پر حق تعالیٰ کی قدرتِ کاملہ کاانجام یہ ہوتاہے کہ وہی قطرہ موتی بنتاہے۔ اگر وہ ایک قطرے پرقناعت نہ کرے توپانی اس کے منہ سے باہر آنے لگے گا اور موتی سے بھی محروم ہوگا۔شکر شکرِ منعم واجب آمد در خرد ور نہ بکشاید در ِ خشمِ ابد