معارف مثنوی اردو شرح مثنوی مولانا روم |
س کتاب ک |
|
عجب اور تکبر کا فرق اور ان کی تعریف عجب کی حقیقت انسان کا اپنی کسی صفت پر اس طرح نگاہ کرناکہ بجائے عطائےحق سمجھنے کے اس کو اپنا ذاتی کمال سمجھے جس کا لازمی اثریہ ہوتاہے کہ منہ سے بجائے شکر نکلنے کے میں ایسا ہوں، ویساہوں نکلتاہے کیوں کہ عطائے حق کا اسے استحضارنہیں رہتااوردل ہی دل میں اپنے کو اچھاسمجھتاہے۔تکبر کی حقیقت یہ ہے کہ اپنے کو بڑاسمجھے کسی کے مقابلے میں، پس تکبر میں دوسرے کی تحقیربھی لازم آتی ہے اور عجب میں دوسرے کی تحقیر لازم نہیں آتی۔ معجب اور متکبر ان دونوں کلیوں کے درمیان نسبتِ اعم ،اخص مطلق کی ہے، متکبر اعم ہے اور معجب اخص ہے۔ اس لیے کہ ہر متکبرمیں عجب کا تحقق ضروری ہوتاہے کیوں کہ جب اپنی کسی صفت پر نظر کرکے اپنی اچھائی اور بڑائی کا تصورہوگاتب ہی تو دوسرے کو حقیر سمجھے گا اور ہرعجب کے لیے تکبرلازم نہیں کیوں کہ کبھی انسان اپنی صفت پر نظرکرکے صرف اپنے ہی کو اچھا سمجھتاہے اور اس وقت کسی کی تحقیر سے خالی الذہن ہوتاہے ۔ یہ علمی تحقیق حق تعالیٰ نے اس ناکارہ عبد کو عطافرمائی ہے۔ اَلْحَمْدُلِلہِ عَلیٰ ذٰلِکَ وَلَافَخْرَ قلب وروح کے امراض میں سالکین کے لیے عجب اور تکبر دونوں ہی مہلک بیماریاں ہیں، ان کی اصلاح میں تغافل نہ ہونا چاہیے۔ ایک مثال سے ان کا ضرر سمجھ میں آجائے گا۔ وہ یہ ہے کہ کوئی عاشق اپنے محبوب کا مشتاق ہے لیکن بوقتِ ملاقات یہ وقوف بجائے محبوب کو دیکھنے کے اپنی جیب سے آئینہ نکال کر اپنی ہی صورت اوراپنے ہی نقش ونگار دیکھ رہاہے تو یہ شخص اس