معارف مثنوی اردو شرح مثنوی مولانا روم |
س کتاب ک |
|
فناو بقا آئینہ ہستی چہ باشد نیستی نیستی بگزیں گر ابلہ نیستی زندگی کا آئینہ کیاہے؟ فناہوناہے،پس اپنے کو فناکردے اگر تو احمق نہیں ہے۔ گرچہ آں وصلت بقا اندر فناست لیک اوّل آں بقا اندر فنا ست اگرچہ قرب مالکِ حقیقی کا ہمارے لیے بقا اور آبِ حیات ہے مگر وہ قرب فنائیت کے بعد ہی عطاہوتاہے یعنی بقا سے پہلے فناضروری ہے ،بقاوفنا اصطلاحاتِ تصوف ہیں۔ فناکامفہوم خواہشاتِ نفسانیہ کو مرضیاتِ الٰہیہ کے تابع کرناہے۔ بقا کا مفہوم نفسِ امارہ کا لوّامہ سے بڑھ کر مطمئنہ راضیہ مرضیہ ہوجاناہے اور یہی مقام قربِ خاص کہلاتاہے۔ چوں ز خود رسّی ہمہ برہاں شدی چوں کہ گفتی بندہ ام سلطاں شدی جب اپنی ہوائے نفس سے خلاصی پاجاؤگے توسراپابرہان ہوجاؤگے یعنی خود بھی صاحبِ یقین ہوگے اور تم سے دوسرے بھی یقین کی دولت سے مشرف ہوں گے، جب تم اپنے کوغلام وبندہ تسلیم کرلوگے تو اسی بندگی میں سلطانی مضمر ہے۔ چوں بمردم از حواس بوالبشر حق مرا شد سمع و ادراک و بصر جب اپنے نفس کو مٹادوگے کسی کامل مرشد کی صحبت کے فیض سے تو حق تعالیٰ کے نور سے تم سنوگے اور اسی کے نور سے دیکھوگے اور اسی نورانی فراست سے ادراک کے حواسِّ خمسہ ظاہرہ و حواسِّ خمسہ باطنہ اپنے افعال انجام دیں گے۔