معارف مثنوی اردو شرح مثنوی مولانا روم |
س کتاب ک |
|
عارف کا جسم زمین پر مثل کوہِ قاف کے ہے یعنی باعتبار اپنے حسنِ اخلاق صبر و حلم و کرم کے استقامت کا پہاڑ ہے اور اس کی روح مرتبۂ حضور مع الحق میں مثل سیمرغ کے عالی طواف ہے (من فیوضِ مرشدی رحمۃ اللہ علیہ ) ان اشعار کی مثنوی اردو ؎ جاں مجرد ہو کے از غوغائے تن پرِّ دل سے اڑتی ہے بے پائے تن روحِ مردِ خفتہ مثلِ آفتاب ہے فلک پر ضوفگن در تن بخواب روحِ انسانی کو رب الناس سے بے تکیّف قرب ہے ہر سانس سے جسمِ عارف ہے زمیں پر کوہِ قاف جان اس کی عرش پر عالی طوافاصلاحِ علمائے بے عمل صد ہزاراں فضل دارد از علوم جانِ خود را می نداند ایں ظلوم مولانارومیؔ رحمۃ اللہ علیہ ارشادفرماتے ہیں کہ علمائے ظاہرسینکڑوں اور ہزاروں علوم وفنون اپنے سینوں میں رکھتے ہیں لیکن ان علوم کی اصلی روح یعنی تعلق مع اللہ اور محبتِ الٰہیہ اپنی جانوں میں حاصل کرنے کایہ ظالم اہتمام نہیں کرتے۔ جانِ جملہ علمہا ایں است و ایں کہ بدانی من کئیم در یومِ دیں