معارف مثنوی اردو شرح مثنوی مولانا روم |
س کتاب ک |
|
دشمنِ راہِ خدا را خوار دار دزد را منبر منہ بر دار دار نفس جب دشمنِ راہِ خدا ہے تودشمن کو ذلیل وخواررکھناچاہیے۔ اس کاکہنا مان کر اس کوخوش کرنااورطاقت ورکرنانادانی ہے۔ کہیں چورکوبھی منبرِعزت پر بٹھاتے ہیں، اس کی جگہ تو دار ہے۔ اسی مضمون کوایک بزرگ حضرت خواجہ صاحب رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں ؎ بھروسہ کچھ نہیں اس نفسِ امّارہ کا اے زاہد فرشتہ بھی یہ ہوجائے تو اس سے بد گماں رہنا نفس کا اژدہا دلا دیکھ ابھی مرا نہیں غافل ادھر ہوا نہیں اس نے اُدھر ڈسا نہیںدربیانِ حصولِ رزق اے دویدہ سوئے دکاں از پگاہ ہیں بہ مسجد رو بجو رزق از الٰہ اے وہ شخص جو علی الصباح دوکان کھولنے کے لیے دوڑتاہے!تجھ کو چاہیے کہ پہلے مسجدجاکررزّاقِ حقیقی سے روزی طلب کر، رزق کی پریشانی دور کرنے کے لیے صرف دروازۂ اسباب کو نہ کھٹکھٹا بلکہ اسباب و تدابیر کے خالق سے رابطہ قائم کرتاکہ وہ مسبّبِ حقیقی اس سبب کومفیدِ نتیجہ سے ہم آغوش کردے۔ فی نفسہٖ اسباب و تدابیر حکم ِ الٰہی کے خلاف تجھ کو کچھ مفید نہ ہوں گے۔جس طرح ایک دیوار نے کھونٹے سے کہاکہ تو میرا جگر کیوں پھاڑے دیتاہے مجھے اذیت نہ دے۔ کھونٹے نے جواب دیاکہ مجھ سے کیا فریاد کرتی ہے؟ اس سے فریاد کر جومجھے ٹھونک رہاہے،اگر وہ ٹھوکنابند کردے تو میں تیرے لیے کچھ بھی باعثِ اَلَم نہیں کہ مجبور بدست ٹھونکنے والے کے ہوں۔ اسی مضمون کو کسی عربی شاعر نے اس شعر میں بیان کیا ہے ؎ قَالَ الْجِدَارُ لِلْوَتَدِ لِمَ تَشُقُّنِیْ قَالَ الْوَتَدُ اُنْظُرْ اِلٰی مَنْ یَّدُقُّنِیْ