معارف مثنوی اردو شرح مثنوی مولانا روم |
س کتاب ک |
|
جوحضرات صحابہ رضی اللہ عنہم کی شان میں فرمایا ہے وہاں ان کی یہی شانِ عشق بیان فرمائی ہے کہ ان کوہماری اطاعت میں مخلوق کی ملامت وطنزواعتراض کا خوف نہیں ہوتا،اسی مفہوم کومولانانے اس طرح بیان کیاہے کہ ؎ کہ دریدم پردۂ شرم و حیا نعرۂ مستانہ خوش می آیدم تا ابد جاناں چنیں می بایدم اے محبوبِ حقیقی! آپ کی یاد میں نعرۂ مستانہ مجھے بہت ہی محبوب ہے اور قیامت تک آپ سے یہی چاہتاہوں کہ اسی طرح نعرۂ مستانہ لگاتارہوں۔ وقت آں آمد کہ من عریاں شوم جسم بگذارم سرا سر جاں شوم اب وہ وقت آپہنچا کہ میں اس جسم کے لباس کو اتاردوں اورسراسرجان ہوکراپنے محبوبِ حقیقی سے جاملوں ؎ خرم آں روز کزیں منزلِ ویراں بروم راحتِ جاں طلبم از پئے جاناں بروموجد و حال و کیفِ عاشقی ودیوانی ہرچہ غیرِ شورش و دیوانگی ست اندریں رہ دوری و بیگانگی ست حق تعالیٰ کی رضااور رضاکے اعمال کے علاوہ جوبھی فضولیات اور لغویات ہیں وہ سلوک میں دوری اور بیگانگی کا باعث ہوتی ہیں۔ تو کر بے خبر ساری خبروں سے مجھ کو الٰہی رہوں اک خبردار تیرا (حضرت حاجی امداداللہ صاحب )