معارف مثنوی اردو شرح مثنوی مولانا روم |
س کتاب ک |
|
علاجِ بدنگاہی وعشقِ مجازی (از محمداخترؔعفااللہ عنہ) اے خداوندِ جہانِ حسن و عشق سخت فتنہ ہے مجازی حسن و عشق غیر سے تیرے اگر ہوجائے عشق عشق کیا ہے درحقیقت ہے یہ فسق عشق با مردہ ہے تیرا اِک عذاب راستے کا ہے تیرے یہ سدِّ باب حکم ہے اس واسطے غضِّ بصر تا ہو زہرِ عشق سے دل بے خطر بدنگاہی مت سمجھ چھوٹا گناہ دل کو اک دم میں یہ کرتی ہے تباہ بدنگاہی تیر ہے ابلیس کا زہر میں ڈوبا ہوا تلبیس کا ہوگئے کتنے ہلاک اس راہ میں کھوکے منزل گرگئے وہ چاہ میں کھو نہ تو اس طرح سے عمرِ عزیز عمر کی قیمت ہے بس ذکرِ عزیز چند دن کا حسن ہے حسنِ مجاز چند روزہ ہیں فقط یہ ساز و باز عشق جو ہوتا ہے رنگ و روپ پر جیسے عاشق شمس کا ہو دھوپ پر جو ہیں خود عاجز سراپا احتیاج عشق میں ان کے جوہیں سرمست آج عاشق و معشوق کل روزِ شمار روسیہ ہیں دونوں پیشِ کردگار قال مولانائے اشرف تھانویؒ عشقِ فانی ہے عذابِ سرمدی دل کا ہو مطلوب کوئی غیرِ حق ہے یہ مستیٔ شراب قہرِ حق گر حقیقت کی طرف کوئی مجاز ہو رجوع تو ہے وہ جانِ پاکباز ہوگیا زندہ وہ گورستان سے آگیا گلشن میں خارستان سے خار سے رخ پھر گیا اب سوئے یار دیکھتا ہے قلب میں اب روئے یار ذکر حق سے مل گیا جس کو قرار سامنے اس کے خزاں بھی ہے بہار