معارف مثنوی اردو شرح مثنوی مولانا روم |
س کتاب ک |
|
پس بصورت آدمی فرعِ جہاں در صفت اصلِ جہاں ایں را بداں بظاہر تو عارف باللہ کائنات کاایک ادنیٰ جز معلوم ہوتاہے مگر اس کے باطن میں تعلق مع اللہ کے فیض سے ایسی وسعت ہے کہ تمام کائنات اس کے سامنے فرع ہے اور اس کی ذاتِ گرامی بمنزلۂ اصل ہے۔ ظاہرش را پشۂ آرد بہ چرخ باطنش باشد محیطِ ہفت چرخ اس عارف باللہ کاظاہر تو اس قدر کمزور ہے کہ ایک مچھر بھی اس کو پریشان کرسکتاہے اور اس کو چرخ دے سکتاہے۔ یعنی بشریت حوادث سے متأثر ہوسکتی ہے لیکن اس کا باطن اس قدر عظیم المرتبت ہے کہ ہفت آسمان کوگھیرے ہوئے ہے۔ جس کومیاں اپنا تعلقِ خاص عطافرمادیتے ہیں وہی ان نعمتوں کا ذوقًا اور وجداناً ادراک کرتاہے۔ اہلِ ظاہر توان باتوں کو افسانہ سمجھیں گے ؎ چو ندیدند حقیقت رہِ افسانہ زدنددربیان بے ثباتئ کائنات کون میگوئیدبیا من خوش پیم واں فسادش گفت رومن لاشیئم دنیا کے اندر دوحالتیں ہر وقت ہوتی رہتی ہیں کہیں: بنتا ہے کہیں بگڑتاہے۔ کہیں شادی کہیں غمی،کہیں ولادت،کہیں موت۔ ہروقت تعمیر وتخریب کے مناظر سامنے ہیں۔ بس ہر چیز کا شباب اور اس کی زیبایش اپنی طرف دعوت دیتی ہے،یہی اس کا کون یعنی وجودِ تعمیری ہے اور ہر چیز کابڑھاپا اور اس کی انحطاطی حالت کہتی ہے کہ جاؤ اپنا کام کرو، وقت ضایع نہ کرو۔میں بالکل ناقابلِ توجہ بے قدر ہوں، یہی اس کا فساد ہے۔