معارف مثنوی اردو شرح مثنوی مولانا روم |
س کتاب ک |
|
دربیانِ علاجِ مایوسی و نومیدی می خرد حق بندگانش عیب دار و ار ہاند از کرم از رسن و دار حق تعالیٰ اپنے عیب دار بندوں کو بھی خریدتے ہیں اور اپنے کرم سے رسن و دار سے یعنی مصائبِ جسمانی اور روحانی سے نجات عطا فرماتے ہیں۔ خارہا گر عیب باشند بہرِ گل لیک بینم جملہ در آغوشِ گل کانٹے اگرچہ گلوں کے لیے باعثِ ننگ اور عیب ہیں مگر میں کانٹوں کو بھی پھولوں کے پاس ہی دیکھتاہوں۔ ایں نماید حق کہ تا مایو سیئے تا ابد ناید بسوئے عاصیے یہ مثالِ مذکور حق تعالیٰ اپنے بندوں کو اس لیے دکھاتے ہیں تاکہ ہمارے بندوں کو مایوسی نہ پیدا ہو یعنی وہ غور کریں کہ جب مخلوق میں یہ حالت مشاہد ہے تو خالق کے کرم کا کیا مقام ہوگا، اس تصور سے کسی گناہ گار کو ناامیدی نہ ہوگی اور وہ اپنے کانٹوں سمیت رحمتِ حق کے پھولوں کے پاس ہوں گے، میاں ان کے سیئات کو بھی حسنات کردیں گے توبہ کی برکت سے۔ ہمچنیں گردید جانِ ناکساں در تقرب ہمچو جانِ خاصگاں اسی طرح کتنے نااہل بندے حق تعالیٰ کی رحمت سے خاصانِ خدا ہوگئے۔ اے ز لطفش مشکل رہ حل شود گرچہ در اسبابِ لاینحل بُوَد اے وہ اللہ کہ جس کے لطف و کرم سے طریق کی مشکلات حل ہوتی رہتی ہیں اگرچہ