معارف مثنوی اردو شرح مثنوی مولانا روم |
س کتاب ک |
|
کچھ نہیں ہے ۔ اے خنک آنکس کہ عقلش نربود نفسِ زشتش مادہ و مضطر بود مبارک ہے وہ شخص جس کی عقل نرہو اور اس کا نفسِ امارہ مادہ اور مغلوب۔ ہست عقلے ہمچو قُرصِ آفتاب ہست عقلے کمتر از ذرہ شہاب بعض عقل مثلِ قرصِ آفتاب کے قوی النورہے اوربعض عقل ذرۂ شہاب سے بھی کمترہے۔ عقلِ خود با عقلِ یارے یار کن امرہم شوریٰ بخواں و کار کن اپنی عقل کو کسی شیخِ کامل کی عقل کی غلامی میں ڈال دے اور حکمِ مشورہ پر عمل کرتے ہوئے اپنے تمام کاموں کوانجام دے۔ چشم غرہ شد بخضر ائے دمن عقل گوید بر محکِ ماش زن آنکھ تو غلاظت کے ذخیرے پر اُگے ہوئے لہلہاتے سبزے پر فریفتہ ہوگئی مگر عقل کہتی ہے کہ اس فیصلے کو میری کسوٹی پر جانچ کرو۔محبت وعشق عاشقم بر رنجِ خویش و دردِ خویش بہرِ خوشنودیٔ شاہِ فردِ خویش میں اپنے رنج و درد پربھی عاشق ہوں اور یہ صبروتسلیم اپنے شاہِ حقیقی کو راضی کرنے کے لیے اختیارکرتاہوں۔ ناخوشِ او خوش بُوَد بر جانِ من جاں فدائے ما و دل رنجانِ من