معارف مثنوی اردو شرح مثنوی مولانا روم |
س کتاب ک |
|
تحسین پرقرآنِ پاک کی شہادت ہے۔ میاں فرمارہے ہیں:وَ حَسُنَ اُولٰٓئِکَ رَفِیۡقًا؎ ارے! یہ انبیاء صدیقین ،شہدا اور صالحین نہایت اچھے رفیق ہیں۔ یہ ایسے رفیق ہیں کہ ان کی رفاقت فی الدنیا رفاقت فی الآخرۃ سے تبدیل ہوجاتی ہے یعنی جودنیا میں ان کواپنا رفیق بنالے گا اس کو جنت میں بھی ان ہی کاساتھ نصیب ہوگا۔ حدیث شریف میں ہے کہ ایک صحابی نے عرض کیا:یارسول اللہ! آپ توجنت کے اعلیٰ مقام پرہوں گے اورہمارے اعمال ہم کو اس مقام پر لے جانے کے قابل نہیں اورآپ سے دوری کا عذاب عشّاق کے لیے عذابِ دوزخ سے کم نہیں توہماری جنت تو آپ کے بغیر جنت نہ ہوگی۔ ارشاد فرمایاکہ گھبراؤ نہیں اَلْمَرْءُ مَعَ مَنْ اَحَبَّ ؎ ہرشخص اسی کے ساتھ رہے گا جس سے اس کو محبت ہے۔دربیانِ حکمتِ شقِّ جبلِ طور از تجلّئ ربّانی بزبانِ عشقِ رومی بر برونِ کہہ چو زد نورِ صمد پارہ شد تا در درونش ہم زند طورپہاڑ کی سطحِ ظاہر پرجب حق تعالیٰ شانہٗ نے تجلّی فرمائی تو پارہ پارہ ہوگیاتاکہ نورِ محبوبِ حقیقی سطحِ ظاہری سے نزول کرکے اس کے باطن میں داخل ہوجائے اور ہرذرۂ طور کو شرفِ تجلی حاصل ہوجائے ؎ آجا مری آنکھوں میں سماجا مرے دل میں گرسنہ چوں برکفش زد قرصِ ناں وا شگافد از ہوس چشم و دہاں اس کی مثال یوں سمجھنا چاہیے کہ کئی روزکے فاقہ زدہ بھوکے انسان کے ہاتھ پراچانک روٹی رکھ دی جاوے تو غلبۂحرص وشدتِ بھوک سے وہ اپنی آنکھیں اور منہ بھی ------------------------------