معارف مثنوی اردو شرح مثنوی مولانا روم |
س کتاب ک |
|
بغض فی اللہ کا جس کامنشأ حق تعالیٰ کی محبت ہے بلکہ مراد اس سے وہ تحقیر ہے جس کامنشأ اپنے ایمان پرعجب اور کبرِ نفس ہے۔کیفیتِ تاثیرِصحبتِ شیخ سالہا باید کہ تا از آفتاب لعل یابد رنگِ رخشانی و تاب حق تعالیٰ شانہٗ آفتاب کی شعاعوں کوجن محدود ذراتِ جبل پر لعل سازی کا امر تفویض فرماتے ہیں تویہ کام علی الفور نہیں ہوتابلکہ کئی سال تک یہ سلسلۂ فیضان شعاعِ آفتاب کاقائم رکھا جاتا ہے یہاں تک کہ وہ بے قیمت پتھرلعل بن کردرخشاں ہوجاتاہے۔ اسی طرح طالب اورسالک کواپنے شیخ کے فیضان میں تعجیل مناسب نہیں کہ یہ عجلت اولاًمایوسی پھرحرمان کاسبب بن جاتی ہے اوربتدریج تربیت پختگی اوراستقامت اور رسوخ پیداکرتی ہے جو اس راہ میں مقصود ہے۔ پس طالب کا قلب جوقبلِ تربیت مثل بے قیمت پتھرہے اورشیخ کاقلب جوانوارِ نسبت سے منورہوکرمثل آفتاب بلکہ قابلِ رشک صدآفتاب ہے طویل مدت تک فیضانِ صحبت سے ایک دن طالب کا دل بھی نسبت مع اللہ کے رسوخ اوراستحکام کی نعمت سے مشرف ہوکررشکِ صدلعل وگہرہوجاتاہے۔ دیرہونے سے گھبرانانہ چاہیے اور دوسرے پیر بھائیوں کی جلدکامیابی پرمایوس نہ ہوناچاہیے کہ ہرشخص کی صلاحیت جداگانہ ہے۔ خشک لکڑی جلداورگیلی لکڑی دیرسے جلتی ہے۔ ہمارا کام صرف طلب میں مجاہدہ اور سعی کرناہے اوریہی طلب مقصود ہے جوایک نہ ایک دن ضرور وصول سے ہمکنارہوجاتی ہے۔حق تعالیٰ ارشادفرماتے ہیں: وَ الَّذِیۡنَ جَاہَدُوۡا فِیۡنَا لَنَہۡدِیَنَّہُمۡ سُبُلَنَا ؎ جو لوگ ہماری راہ میں مصائب اورمحنتیں برداشت کرتے ہیں ہم ان کے لیے اپنے ملنے کاایک راستہ نہیں بلکہ بہت سے راستے کھول دیتے ہیں۔ یہ ترجمہ بزبانِ عشق ------------------------------