معارف مثنوی اردو شرح مثنوی مولانا روم |
س کتاب ک |
|
تاکہ نورِ او کشد نارِ ترا وصلِ او گلشن کند خارِ ترا تاکہ اس اللہ والے کانور تیری نارِ شہوت کومغلوب اور کمزور کردے اوراس کی صحبت کی برکت تیرے خار کوگلشن بنادے۔کبر و عجب علّتے بدتر ز پندارِ کمال نیست اندر جانت اے مغرورِ حال ا پنے کوکامل سمجھنے کی بیماری سے بڑھ کر کوئی بیماری نہیں، پس اے وہ شخص جو موجودہ حالت سے اپنے کو بڑا سمجھ رہاہے! اپنے انجام پرنظرکرکہ نہ جانے خاتمہ کیسا ہو ؎ کسی کو آہ فریبِ کمال نے مارا میں کیا کہوں مجھے فکرِ مآل نے مارا (احمدؔ) زاں نمی پرد بسوئے ذوالجلال کو گمانے می برد خود را کمال ایسا شخص جو اپنے کو کامل سمجھ لیتاہے وہ حق تعالیٰ کی راہ میں سست رفتار اور کاہل ہوجاتاہے اور اس کی ترقی ختم ہوکر زوال پذیر ہوجاتی ہے۔ علّتِ ابلیس اَنَا خیرٌ بدست ویں مرض در نفسِ ہر مخلوق ہست ابلیس کی بیماری یہی تھی کہ وہ اناخیرٌ (میں اچھا ہوں سیدناآدم علیہ السلام سے) کہتا تھا اور یہ مرض ہرشخص میں ہے۔ چند دعویٰ و دم و باد و بردت اے ترا خانہ چو بیت العنکبوت