معارف مثنوی اردو شرح مثنوی مولانا روم |
س کتاب ک |
|
تعارف حضرت مولانا رومی رحمۃ اللہ علیہ وحضرت شمس تبریزی رحمۃ اللہ علیہ از: محمد اختر(رحمۃ اللہ علیہ) قصہ مولانائے رومی کا سنو درس دیتے تھے کبھی یہ دوستو بے خبر از حالِ ملکِ نیم شب علمِ ظاہر سے شغف تھا روز و شب درس ان کا شہرۂ آفاق تھا اہلِ باطن سے تعلّق شاق تھا عِلم کا پندار اہلِ علم کو رکھتا ہے محروم حق سے دوستو علم کا حاصل ہے بس عشقِ خدا آہ سب دھوکا ہے بس اس کے سوا فضل لیکن جس پہ ہو اللہ کا اک نہ اک دن ہوگا وہ اللہ کا مولوی رومی پہ تھا فضلِ خدا غیب سے امداد کا ساماں ہوا کام سب کا فضل سے ہوتا ہے آہ بے کرم کچھ بھی نہیں ہوتا ہے آہ گر نہ ہو بر بندگاں فضلِ نہاں کوئی جاں واصل ہو کب تا شاہِ جاں غیب سے سامان رومی کا ہوا شمس تبریزی نے کی حق سے دعا اے خدا جو آگ میرے دل میں ہے جو تڑپ اس نیم جاں بِسمل میں ہے آتشِ حق جو میرے سینے میں ہے از عطا جو کچھ بھی گنجینے میں ہے اے خدا ملتا کوئی بندہ مجھے جو صحیح معنوں میں ہو لائق ترے عشقِ حق سے اس کا سینہ پُر کردوں اور صدف کو اس کے میں پُردر کردوں میری آتش کا تحمّل جو کرے کوئی بندہ مجھ کو اب ایسا ملے میری نسبت میں جو سوزِ عشق ہے دل میں گویا کوہِ طورِ عشق ہے