معارف مثنوی اردو شرح مثنوی مولانا روم |
س کتاب ک |
|
اپنے پرِ طاؤسی کومت دیکھو بلکہ اپنا پیردیکھ تاکہ آنکھ کی بیماری (عجب و حسد) اللہ والوں سے تیرے دل میں کینہ نہ پیداکرے یعنی جس طرح بقولِ مشہور طاؤس اپنے پروں کے حسن سے مست و بے خود رہتاہے اور جب اپنے پیر کی سیاہی دیکھتاہے تو شرمندہ ہو جاتا ہے۔ اسی طرح تم اپنی صفاتِ حسنہ پرنظرنہ کرو اور ان کوعطائے حق سمجھ کرشکر ادا کرو اور اپنی برائیوں پر نظر ڈال کراپنی نگاہ میں اپنے کو حقیر اورذلیل سمجھو اور نگاہِ خلق میں ذلیل ہونے سے پناہ مانگتے رہوکہ پردۂ ستاریت کہیں نحوستِ اعمال سے اٹھ نہ جائے۔ خاک شو مردانِ حق را زیر پا خاک بر سر کن حسد را ہمچو ما اللہ والوں کے پیروں کے نیچے خاک بن جاؤ اوراپنے حسد کے سرپرخاک ڈالوہماری طرح یعنی خود بینی اور خود رائی ترک کرکے کسی کامل کادامن پکڑلو اور اپنے کو اس رائے پر اس طرح ڈال دو جس طرح مردہ فی ید الغسّال ہوتاہے(غسال معنیٰ نہلانے والا)خشم و غصہ ترکِ خشم و شہوت و حرص آوری ہست مردی و رگِ پیغمبری غصہ و شہوت اور حرص کاترک کرنا مردانِ حق کا شیوہ ہے اور پیغمبرانہ سنت ہے۔ خشم و شہوت مرد را احول کند ز استقامت روح را مبدل کند غصہ اور شہوت مرد کو احول(احول وہ بیماری جس میں ایک چیز دودکھائی دیتی ہے) کرتاہے اور روح کو استقامت سے ہٹادیتاہے۔ گفت عیسیٰ را یکے ہشیار سر چیست در ہستی ز جملہ صعب تر