معارف مثنوی اردو شرح مثنوی مولانا روم |
س کتاب ک |
|
واضح اور ذہن نشین کیا ہے کہ ان کے انکار کی کوئی گنجایش باقی نہیں رہتی۔ پیچیدہ سے پیچیدہ مسئلے کو اس صفائی اور ستھرائی سے سلجھاکر بیان فرمایاہے کہ اس کے سمجھنے میں کوئی دشواری نہیں معلوم ہوتی۔ تصوّف اور کلام کے مہمّات مسائل میں سے کوئی ایسا مسئلہ نہیں ہے جو نظرانداز ہوگیاہو۔ یہ مثنوی بحرِرمل مسدّس محذوف میں ہے۔ وزن فَاعِلَا تُنْ فَاعِلَا تُنْ فَاعِلُنْدوبار ہے۔ اس مثنوی کے الفاظ اور حروف میں جو ترنّم اور طرزِ ادا میں جو نُدرت اور ترکیب میں جو روانی اور سلاست ہے وہ بیان سے باہر ہے۔ ان سب باتوں کے ماسوا جو روحانی برکت اور اثرِ وِجدانی وذوقی لذّت ہے وہ ان تمام باتوں سے بالاترہے۔خلاصۂ تذکرہ محمد جلال الدین مولانا رومی ابن شیخ بہاء الدین بن حسین بلخی،جائے پیدایش بلخ،سالِ ولادت ۶۰۴ھ۔ محمد خوارزم شاہ کے نواسے،۶ سال کی عمر میں اپنے والد کے ہمراہ بلخ سے ہجرت کی،۱۸ سال کی عمر میں بمقام لارندشادی ہوئی،اسی سال قونیہ میں آکرمتوطّن ہوگئے۔ ۲۵ سال کی عمر میں بغرضِ تحصیلِ علم شام کا سفر کیا اور ۶۴۲ھ میں بمقامِ قونیہ حضرت شمس تبریز کے مریدہوئے۔ ۶۶۲ھ میں مثنوی شریف لکھی۔ ۵جمادی الثانی یومِ یک شنبہ کو بوقتِ غروبِ آفتاب ۶۷۲ھ میں انتقال فرمایااور وہیں قونیہ میں دفن ہوئے،۶۸ سال کی عمر پائی۔علاء الدین محمداور سلطان ولہ دوبیٹے چھوڑے۔ مثنوی شریف کے الہامی ہونے پرمولانارومی کے ایک شعر سے اشارہ: مثنوی شریف کے الہامی ہونے پرمولانارومی رحمۃ اللہ علیہ کے ایک شعر سے اشارہ ملتاہے ؎ چوں فتاد از روزنِ دِل آفتاب ختم شد واللہ اعلم بالصواب مولانا فرماتے ہیں کہ دل میں جس دریچۂ باطنی سے وارداتِ غیبیہ علوم اور مَعارف کے