معارف مثنوی اردو شرح مثنوی مولانا روم |
س کتاب ک |
|
مطلعِ تاریخِ ایں سودا و سود سالِ ہجرت ششصد و شصت و دو بودطرزِ تصنیف علمی واخلاقی تصانیف کا ایک طرز تو یہ ہے کہ ایک ایک مسئلے کو علیٰحدہ علیٰحدہ ایک ایک باب میں بیان کیا جائے اور ایک قسم کے مضامین سب ایک جگہ جمع کردیے جائیں۔ دوسراطریقہ یہ ہے کہ کوئی افسانہ لکھا جائے اور علمی مسائل موقع موقع سے اُس کے ضمن میں بیان کردیے جائیں۔اس دوسرے طریقے میں فائدہ یہ ہے کہ مضامین ذہن نشین ہوجاتے ہیں اور طبیعت اکتاتی نہیں۔ مثنوی میں مولانا نے اسی طریقے کو اختیار کیا ہے۔ مولانا خود فرماتے ہیں ؎ ای برادر قصہ چوں پیمانہ ایست معنیٰ اندر وے بسانِ دانہ ایست گفت نحوی زَیْدٌ عَمْروًا قَدْ ضَرَبْ گفت چونش کرد بے جرمے ادب گفت ایں پیمانۂ معنے بود گندمش بستاں کہ پیمانہ ست رد عمرو و زید از بہرِ اعراب ست ساز گر دروغست آں تو با اعراب ساز فارسی زبان میں جس قدر کتابیں اس فن پر لکھی گئیں کسی میں ایسے دقیق اور نازک مسائل واسرار نہیں ملتے جن کی مثنوی میں بہتات وکثرت ہے،مثنوی نہ صرف تصوّف اوراخلاق کی کتاب ہے بلکہ یہ عقائداور کلام کی بھی بہترین تصنیف ہے۔ مسائل تصوّف کے ہوں یا علمِ کلام کے اُن کو تمثیل اور تشبیہ سے اس طرح