معارف مثنوی اردو شرح مثنوی مولانا روم |
س کتاب ک |
|
آنکھوں سے نور تو چلاگیا مگرآنکھوں کے حلقے کے ویرانے میں حضرت موسیٰ علیہ السلام کے چہرے کا خاص نور سماگیاہے۔ حق تعالیٰ کو حضرت صفورا علیہا السلام کے عشق کا یہ مقام اور یہ کلام بہت پسند آیا اور خزانۂ غیب سے پھر ان کی دونوں آنکھوں کو ایسی بینائی کا نور بخش دیا جس سے وہ ہمیشہ حضرت موسیٰ علیہ السلام کو دیکھا کرتی تھیں اور اس میں ایسا تحمل اللہ تعالیٰ نے دیا کہ وہ پھر کبھی اس نورِ خاص سے ضایع نہ ہوئیں۔حکایت چوہے اور مینڈک کی دوستی ایک دریا کے کنارے ایک چوہے سے ایک مینڈک کی دوستی ہوگئی اور یہ محبت درجۂ عشق وآشنائی تک پہنچی یہاں تک کہ دونوں ایک وقتِ معین پر ہر صبح کو ملاقات کے پابند ہوگئے اور دیر تک دونوں تبادلۂ خیالات کرتے تھے۔ دونوں کا دل باہم ملاقات سے مسرور اور کشادہ ہوتا۔ ایک دوسرے سے قصے کہتےبھی تھے اور سنتے بھی تھے۔ راز گو تھے، بے زبان بھی تھے اور بازبان بھی تھے جب آپس میں ملتے توایک دوسرے کو پانچ پانچ سال کے قصے یاد آتے۔ مولانا رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں کہ ؎ جوشِ نطق از دل نشانِ دوستی است بستگیٔ نطق از بے الفتی است گویائی اور گفتگو کا جوشِ دل سے اٹھنا علامتِ محبت ہے اور گویائی میں رکاوٹ اور بستگی علامتِ بے الفتی ہے۔ دل کہ دلبر دید کے ماند ترش بلبلے گل دید کے ماند خمش جس دل نے دلبر کو دیکھ لیا توترش رو کب رہ سکتاہے اور جب بلبل پھول کو دیکھ لیتاہے تو خاموش کیسے رہ سکتاہے۔