معارف مثنوی اردو شرح مثنوی مولانا روم |
س کتاب ک |
ہر کہ باشد قوت او نورِ جلال چوں نزاید از لبش سحرِ حلال جس شخص کی غذا انوارِ ذکرِالٰہی ہوں تو اس کے لبوں سے کیوں نہ سحرِ حلال یعنی کلامِ مؤثر پیدا ہوگا۔در مذمتِ تعلق بالمجاز و پناہ گرفتن ازو با حضورِ آفتابِ خوش مساغ راہ نمائی جستن از شمع و چراغ بے گماں ترکِ ادب باشد ز ما کفرِ نعمت باشد و فعلِ ہوا آفتابِ خوش رفتار کے نور سے اعراض کرنا اور اس کی موجودگی میں شمع و چراغ سے راہنمائی ڈھونڈنابلا شبہ ہماری طرف سے ترکِ ادب ہے اور نعمتِ نورِآفتاب کی ناشکری ہے اور ایسا کرنا محض ایک نفسانی فعل ہوگا۔ آفتابا با تو چو قبلہ وامیم شب پرستی و خفاشی می کنیم سوئے خود کن ایں خفاشاں را مطار زیں خفاشی شاں بخر اے مستجار اے آفتابِ حقیقی!آپ جیسے قبلہ و امام کے ہوتے ہوئے ہم شب پرستی و خفاشی کررہے ہیں یعنی چمگادڑوں کی ظلمت پسندی میں مبتلا ہیں، آپ اپنے فضل و کرم سے ان خفاش طبع انسانوں کی پرواز کو اپنی طرف کرلیجیے اور ان کو ظلمت سے نکال کر نور میں داخل فرمادیجیے۔