معارف مثنوی اردو شرح مثنوی مولانا روم |
س کتاب ک |
|
ترے کرم کی نظر کے صدقے تری نظر کے کرم کے صدقے انوکھے ساغر ہیں جن سے مجھ کو مئے محبت پہنچ رہی ہے محبت دونوں عالم میں یہی جا کر پکار آئی جسے خود یار نے چاہا اسی کو یادِ یار آئی (بابانجم احسنؔ) گر تو طالب نیستی تو ہم بیا تا طلب یابی ازیں یارِ وفا اگر تم طالب نہیں ہو یعنی اپنے دل میں حق تعالیٰ شانہٗ کی طلب محسوس نہیں کرتے تو تم کو بھی مایوس نہیں ہونا چاہیے۔تم کو بھی کسی اللہ والے کی صحبت میں جانا چاہیے تاکہ اس یارِ باوفا سے تمھیں حق تعالیٰ کی طلب و پیاس عطا ہو۔احتراز از ترکِ عمل بسببِ کوتاہئ عمل دوست دارد دوست ایں آشفتگی کوششِ بے ہودہ بہ از خفتگی بعض طالبین ذکر میں ناغہ یا وسوسوں سے تنگ آکر تمام معمولات چھوڑ بیٹھتے ہیں اس خیال سے کہ جب حضورِ قلب سے ذکر نہ ہوا یاناغہ ہوتارہتا ہے توپھر اس ذکر سے کیا فائدہ ہوگا یادل کواطمینان نہیں، فلاں کام کی فکر ہے اس فکر سے نجات حاصل کرکے پھر ذکر شروع کروں گا۔ یہ شیطان کا دھوکا ہے، اسی دھوکے کا یہ علاج ہے۔ فرماتے ہیں: حق تعالیٰ شانہٗ اپنے بندوں کی آشفتہ حالی و درماندگی اور عاجزی کو محبوب رکھتے ہیں لہٰذا اپنے اعمال کی کوتاہیوں اور ناغوں سے یا عدمِ حضورِ قلب اورکثرتِ وساوس سے تنگ آکر اعمال کو ترک نہ کرو، یہ بے ہودہ اور نکمی کوشش بھی بالکل سورہنے سے بہتر ہے ؎ اندریں رہ می تراش و می خراش تا دمے آخر دمے فارغ مباش