معارف مثنوی اردو شرح مثنوی مولانا روم |
س کتاب ک |
|
عمدہ کھانے بھی کھاتے ہیں۔ احباب کی دعوتیں بھی قبول فرماتے ہیں، خلق ان کے ہاتھ پاؤں چومتی ہے مگر ان کے دل سے پوچھوکہ کیا گزررہی ہے ؎ ہنسی بھی ہے میرے لب پر ہردم اور آنکھ بھی میری تر نہیں ہے مگر جو دل رو رہا ہے پیہم کسی کو اس کی خبر نہیں ہے (خواجہ صاحبؒ ( فائدہ :اس حکایت میں اس امر کی تعلیم ہے کہ غیر اختیاری طور پراگر کوئی مصیبت یا تکلیف لاحق ہوجائے تو گھبرانا نہ چاہیے کیوں کہ اس تکلیف وصدمہ پر جو نعمت حق تعالیٰ کی طرف سے عطاہوگی وہ اس تکلیف سے بدرجہا بہتر ہوگی اور کبھی یہ چھوٹی بلا کسی بڑی بلا سے نجات کا ذریعہ ہوتی ہے جیسے کہ اس حکایت سے معلوم ہوا کہ اہلیہ کی یہ بدمزاجی عُجب وکبر جیسی مہلک بلا سے نجات کا ذریعہ ہوگئی۔ البتہ تکلیف ومصیبت طلب نہ کرنی چاہیے بلکہ عافیت کی درخواست کرتارہے کہ اے اللہ! ہم ضعیف ہیں،تحمل کی قوت نہیں۔ آپ سے عافیت کا سوال کرتاہوں۔ مانگے تو عافیت ہی پھر جس حال میں میاں رکھیں راضی رہے اور مصیبت کے دور ہونے کی تضرّع کے ساتھ دعا کرتارہے۔حکایتِ حضرت مولانا جلال الدین رومی حضرت مولاناجلال الدین رومی رحمۃ اللہ علیہ اپنی صدی کے بہت بڑے آدمی گزرے ہیں۔ اللہ تعالیٰ نے ان کو اپنی معرفت کا بڑا حصہ عطا فرمایاتھا، ۶۰۴ھ میں بمقامِ بلخ پیدا ہوئے۔حضرت ابو بکر صدیق رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی اولاد سے تھے۔ محمد خوارزم شاہ کے حقیقی نواسے تھے۔ چھ۶سال کی عمر میں جب آپ کے والد آپ کو حضرت بابافرید الدین عطاررحمۃ اللہ علیہ کی خدمت میں لے گئے تو حضرت خواجہ عطاررحمۃ اللہ علیہ نے اپنی مثنوی اسرارنامہ آپ کو تبرکًاہدیہ دی اور آپ کے والد صاحب سے فرمایاکہ یہ لڑکا ایک دن غلغلہ بلند کرے گا۔ چند سال بعد مولاناتکمیلِ علوم کے لیے شام تشریف لے گئے اور دمشق میں