معارف مثنوی اردو شرح مثنوی مولانا روم |
س کتاب ک |
|
اس سے زیادہ مطلوب ہی نہیں بلکہ مضر ہے پس عالمِ غیب کوعالم ِمشاہدہ بنانے کی تمنا دنیا میں کرنا انتظامِ عالم کو درہم برہم کرنے کی تمناکرنا ہے اور قیامت تک اس عالم کو امتحان کے لیے حق تعالیٰ کوباقی رکھنا ہے۔ پس اگر پردۂ غفلت بالکل چاک کردیاجاتا اور حجاباتِ افلاک مرفوع ہوجاتے تو بقائےعالم کی حکمتِ مذکورہ فوت ہوجاتی اور دیگِ حکمت خام رہ جاتی۔ اسی وجہ سے حق تعالیٰ شانہٗ نے بندوں سے ایمان بالغیب کا مطالبہ فرمایا اور کائنات میں نہ اپنے کو دکھانے کا اور نہ عالمِ غیب کے مشاہدے کا کوئی روزن (دریچہ ۔ کھڑکی) رکھا۔حضرت شیخ قدس سرہ العزیز رحمۃ اللہ علیہ فرمایاکرتے تھے کہ دنیا میں آنکھیں بنائی جارہی ہیں اعمالِ صالحہ اور تقویٰ سے۔ قیامت کے دن کھول دی جائیں گی اور وہاں دیدار سے مشرف ہوں گی۔ خلاصۂ کلام دنیا میں ایمان بالغیب سے مقصد اجرِ مجاہدہ لاہل الایمان اور استدراج لاہل الطغیان ہے جن کا حاصل اخیر میں ظہور اسمائے الٰہیہ ہے اور پوری حکمت کا علم صرف حق تعالیٰ ہی کو ہے۔چند نظائرِ استدلالی بر ایمان بالغیب گر تو او را می نہ بینی در نظر فہم کن اما با ظہارِ اثر اگر تم حق تعالیٰ کو اپنی آنکھوں سے نہیں دیکھتے ہو تو حق تعالیٰ کی مصنوعات اور ان کی نشانیوں کو دیکھ کر وجودِ باری تعالیٰ پر استدلال کرسکتے ہو۔ پس حق تعالیٰ شانہٗ نے ایمان والوں کی شان میں ارشاد فرمایا وَ یَتَفَکَّرُوۡنَ فِیۡ خَلۡقِ السَّمٰوٰتِ وَ الۡاَرۡضِ؎ آسمانوں اور زمین میں تفکر اور غور کیا کرتے ہیں۔ ------------------------------