معارف مثنوی اردو شرح مثنوی مولانا روم |
س کتاب ک |
|
جس نے اپنی برائیوں پر نظر رکھی اور جس نے دوسروں کی اچھائیوں پر نظر رکھی۔ پس یقیں می داں کہ خوئے خوش گرفت دینِ کامل در کنارِ خود گرفت تو یقین کرلو کہ اس نے بہت اچھی عادت پکڑلی اور دینِ کامل اپنی گود میں لے لیا۔دربیانِ مذمتِ عجب عجب خود را نیک و خوش پنداشتن بر صفاتِ خود نظر انداختن عجب نام ہے اپنے کو اچھا سمجھنا اور اپنی کسی صفت علم یا عمل یا حسن یا دولت و مال پر اس طرح نظر ڈالنا کہ ان کو عطائے حق نہ سمجھنا اور اپنا ذاتی کمال سمجھنا۔ او نمی داند کہ ایں جملہ صفات ہست از حق مستعار اندر حیات یہ بے وقوف یہ نہیں جانتا کہ یہ تمام خوبیاں اور نعمتیں انسان کے پاس حق تعالیٰ کی طرف سے مستعار( عاریت پر) عطا ہوئی ہیں جو موت کے وقت واپس لی جاویں گی اور دراصل یہ امانتیں چند روز کے لیے ہمارے پاس ہیں امتحان کے لیے کہ بندہ ان کو صرف ذاتی تعیش میں صرف کرتاہے یا رضائے الٰہی کے مطابق صرف کرتاہے۔ شکر کن و خویشتن بینی مکن کن حذر ا ز عجب و خود بینی مکن شکر کرو اوراپنے کو بڑا یا اچھا نہ سمجھو اور اس بیماری سے پرہیز کرو،خود بینی مت کرو۔ عجب سالک را کند روباہ و خر گرچہ باشد در طریقت شیرِ نر