معارف مثنوی اردو شرح مثنوی مولانا روم |
س کتاب ک |
|
ذاتِ باری تعالیٰ کی معرفت کے لیے صفاتِ باری تعالیٰ کے اندرتفکر کرو تاکہ یہی تفکر فی الصفات تمہارے لیے معرفتِ ذات کا سبب بن جائے۔ زاں کہ نامحدود ناید در حدود بحرِ مطلق چوں در آید در قیود کیوں کہ ذاتِ باری تعالیٰ غیر محدود ہے اور تمہاری عقل و فکر کا پیالہ محدود ہے پس غیرمحدود سمندر محدود ظرف میں کیسے آسکتاہے۔نبوت و وحی چوں خدا اندر نیا ید در عیاں نائب حقند ایں پیغمبراں کیوں کہ حق تعالیٰ کی ذات بندوں کی نگاہوں سے پردۂ غیب میں ہے اس لیےبراہِ راست تکلم وہدایت کے لیے انبیاء علیہم السلام کو منتخب فرمایا اور انھیں رشد وہدایت کے لیے اپنا نائب قراردیا۔ نورخواہ ازمہہ طلب خواہی زخور نورِ مہہ ز آفتاب ست اے پسر جب چاند کی روشنی اس کی ذاتی نہیں ہے بلکہ آفتاب کے نور کی عکاسی سے وہ روشن ہے تو چاند کودیکھنا گویا کہ خورشید ہی کو دیکھنا ہے اور خورشیدکی روشنی کا تحمل نہ ہونے سے اس کا دیکھنا بھی مشکل تھا۔ انبیا را دردروں ہم نغمہا ست طالباں را زاں حیاتِ بے بہاست انبیاء علیہم السلام کے سینوں میں درد و عشقِ الٰہی کے نغمات پوشیدہ ہیں جن سے طالبینِ حق کو حیاتِ بے بہا عطا ہوتی ہے۔