معارف مثنوی اردو شرح مثنوی مولانا روم |
س کتاب ک |
|
دربیانِ ضرورتِ فیضانِ روحِ کاملین بہر خروج از چاہِ دنیا کے دہد زندانیے در اقتناص مردِ زندانیٔ دیگر را خلاص جس شخص کی روح خود تعقاتِ دنیا میں گرفتارہے وہ دوسرے زندانی (گرفتار) کوکب رہائی دے سکتاہے یہ ایک مقدمہ ہوا جو ظاہر ہے۔ اہلِ دنیا جملگاں زندانی اند انتظارِ مرگِ دارِ فانی اند دوسرامقدمہ یہ ہے کہ اہلِ دنیا سب کے سب زندانی(قیدی) ہیں یعنی قیدیوں کی طرح عاجز ومغلوب ہیں کیوں کہ محبانِ دنیا اپنی خواہشاتِ نفس کے غلام ہوتے ہیں پس اس معنیٰ کے اعتبار سے ہرگرفتارِ شہوت قیدی ہے اور جس طرح زندانی رہائی کامنتظر رہتاہے اسی طرح اہلِ دنیا اضطرارًا کشاں کشاں اس دارِفانی سے خلاصی پانے کایعنی موت کاانتظار کررہے ہیں۔ جز مگر نادر یکے فردانیے تن بزنداں جانِ او کیوانیے اہلِ دنیا تو خواہشاتِ نفسانیہ سے موت ہی کے وقت رہائی پاتے ہیں اور اہل اللہ مجاہدہ کرکے زندگی ہی میں نفس کے تقاضوں کی غلامی سے آزاد ہوجاتے ہیں اور ان کاجسم تودنیا میں چلتاپھرتاہے لیکن روح تعلق مع اللہ سے مشرف ہوکر چرخِ پرتاباں رہتی ہے یعنی اجسام کے بقا کی تدابیر کے باوجود ان کی ارواح مقامِ قربِ اعلیٰ سے ہروقت مشرف رہتی ہیں پس ان اہل اللہ سے اہلِ دنیا اپنی آزادی کی امداد حاصل کرسکتے ہیں چناں چہ تجربہ اور تواتر سے یہ مسلّمہ اہلِ دنیا پربھی واضح ہوچکاہے کہ جو لوگ کسی اللہ والے کی صحبت میں رہ کر ایک مدت مجاہدہ اور معمولاتِ تجویز کردہ پرپابندی کااہتمام کرلیتے ہیں تووہ بھی ان کے فیضِ صحبت سے غلامیٔ نفس سے اور چاہِ دنیا سے آزاد ہوجاتے ہیں اور امرِ