معارف مثنوی اردو شرح مثنوی مولانا روم |
س کتاب ک |
|
او ندا کردہ کہ خواں بنہادہ ام نائبِ حقّم خلیفہ زادہ ام یہ نقلی صوفی بھی اعلان کرتاہے کہ میں نے بھی تصوف کا دسترخوان بچھایاہے اور میں بھی نائبِ حق اور خلیفہ زادہ ہوں۔ دائم اندر آب کارِ ماہی ست مار را با او کجا ہمراہی ست ہمیشہ پانی میں رہنا یہ مچھلیوں ہی کا کام ہے ، اسی طرح اللہ تعالیٰ سے ہروقت رابطہ رکھنا اور غافل نہ ہونا اہل اللہ ہی کاکام ہے۔ سانپ اگر مچھلی پن ظاہربھی کرے خلق کو دھوکا دینے کے لیے تو کب تک پانی میں رہ سکے گا آخر کار گھبراکر پانی سے بل میں بھاگ جائے گا ، اسی طرح نقلی صوفی مخلوق کے سامنے تو سر جھکائے مراقبہ اور ذکر ہُوْ کرتاہے مگر جب خلوت میں جاتاہے تو فرائض بھی ادا نہیں کرتا ؎ گرچہ در خشکی ہزاراں رنگہا ست ماہیاں را با یبوست جنگہا ست خشکی میں ہزاروں نقش و نگارہوں مگر مچھلیوں کو خشکی سے جنگ و عداوت ہے اور ان کو ان ہی نقش و نگار میں موت نظر آتی ہے برعکس پانی میں انھیں طوفان سے بھی خوف نہیں، اسی طرح اللہ والے اسبابِ غفلت و تشویش سے گھبراتے ہیں اگرچہ ہفت اقلیم کی مملکت ہی کیوں نہ ہو۔ اور نقلی صوفی چند ٹکوں اور تھوڑی سی دنیا کے عوض بِک جاتاہے۔مجاہدہ و ریاضت راہ دو رست اے پسر ہشیار باش خواب با گور افگن و بیدار باش اے مخاطب! راستہ بہت دور دراز کا ہے ہوشیارہوجا۔ نیند کو اعتدال اور درجۂ ضرورت تک محدود کر اور باقی آرام کی نیند قبرکے لیے چھوڑدے اور رضائے دوست کے لیے