معارف مثنوی اردو شرح مثنوی مولانا روم |
س کتاب ک |
|
کرکے اپنی مجالس گرم کرتے ہیں اور سامعین کے دلوں کو مسخر کرنا چاہتے ہیں اور خود کسی اللہ والے کی صحبت میں ایک عمر رہ کر سلوک طے نہیں کیا۔ ان کو کیا خبر کہ اللہ والوں کے باطن میں کیا ہوتاہے۔ صرف نقلِ الفاظ سے ان کے ضمیر اور قلبی احوال و مقامات کی خبر کیسے ممکن ہے؟یہ خود دھوکے میں ہیں اور دوسروں کو دھوکے میں ڈالے ہوئے ہیں ؎ حرفِ درویشاں بد ز دد مرد دوں تا از و بر خلقہا آرد فسوں کمینہ اور ذلیل لوگ بھی درویشوں کے ملفوظات رٹ لیتے ہیں تاکہ خلائق کو ان چرائے ہوئے حروف سے اپنا گرویدہ بنالیں۔قلبِ غافل قندیل نیست بولِ قارورہ ہست آں زجاجے کو ندارد نورِ جاں بولِ قارورہ ست قندیلش مخواں جس انسان نے اپنی اصلاح کسی اللہ والے سے کراکے دل میں نورِ حق نہ حاصل کیا وہ دلِ خدانا آشناخالی از نورِ حق قارورہ کی شیشی ہے، قندیل کہلانے کا مستحق نہیں۔ دانشِ نورست در جانِ رجال نے ز دفتر نے ز راہِ قیل و قال اللہ والوں کی جان اللہ تعالیٰ کے تعلقِ خاص کی برکت سے نورانی فہم وعقل سے مشرف ہوتی ہے او ر یہ نورِفہم مطالعۂ کتب اور بحث ومباحثہ(قیل وقال) سے نصیب نہیں ہوتا ہے۔ با چناں رحمت کہ دارد شاہ ہش بے ضرورت از چہ گوید نفس کش اگرنورِ مذکور محض مطالعۂ کتب سے حاصل ہوجاتاتووہ شاہ جان اور سلطان العقول باوجود اس قدر رحمتِ واسعہ کے نفس کشی یعنی مجاہدے کاحکم کیوں فرماتے۔