معارف مثنوی اردو شرح مثنوی مولانا روم |
س کتاب ک |
|
حق تعالیٰ کی محبت کو جو انبیائے کرام علیہم الصلوٰۃ والسلام اور اولیائے عظام کی مبارک جانوں کو عطافرمائی جاتی ہے، نہیں سمجھتے۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ یہ دنیا کے ظاہری آرام کے حجاب میں ہیں اور حق تعالیٰ کی محبت کا لطف موقوف ہے نفس کے تقاضوں کوفنا کرنے پر پس یہ نعمت ان ہی کو ملتی ہے جو اپنے کومٹادیتے ہیں محض عقل سے اس کا ادراک ممکن نہیں۔ ور بعقل ادراکِ ایں ممکن بُدے قہرِ نفس از بہر چہ واجب شُدے با چناں رحمت کہ دارد شاہ ہش بے ضرورت چوں بگوید نفس کش ترجمہ : اگرعقل سے اللہ تعالیٰ کی محبت کا ادراک ممکن ہوتا تو مجاہدۂ نفس کس لیے ضروری ہوتا۔ باوجود ایسی رحمت کے کہ وہ سلطان العقول یعنی اللہ تعالیٰ رکھتے ہیں۔ بے ضرورت کیوں فرماتے کہ نفس کی مخالفت کرو اور خواہشات کو مغلوب کرو۔ مجاہدہ ہی سے نفس میں اضمحلال اور فنائیت پیداہوتی ہے اور اسی پر حق تعالیٰ کی معرفت موقوف ہے۔ حضرتِ اقدس حکیم الامت مولانا تھانوی رحمۃ اللہ علیہ سے جب مولاناسید سلیمان ندوی نے دریافت کیا کہ حضرت! فقیری کس چیز کا نام ہے؟ ارشاد فرمایاکہ اپنے کومٹادینے کا۔رجوع الی الحکایت پھر اصل حکایت کی طرف رجوع فرماتے ہیں کہ چوہے نے کہا:اے یارمینڈک! میں بدون تیرا چہرہ حسین دیکھے ایک دم کوبھی چین نہیں پاتا۔ دن کومیری معاش تیرا دیدار ہے، رات کو میری تسلی اور قرار اور نیند توہی ہے، تیرا احسان ہوگاکہ تومجھے مسرورکردیاکرے اور وقت بے وقت ملاقات کا لطف چکھادیاکرے۔ از مروت باشد اَر شادم کنی وقت بے وقت از کرم یادم کنی