معارف مثنوی اردو شرح مثنوی مولانا روم |
س کتاب ک |
|
حکایتِ شاہزادۂ مسحور ایک بادشاہ کا ایک ہی لڑکا تھا۔ حسنِ صورت اور حسنِ سیرت دونوں ہی سے آراستہ تھا۔ بادشاہ نے اس لڑکے کا ایک حسین شاہزادی سے عقد کرنا چاہااور کسی زاہد و پرہیزگار صالح خاندان میں رشتہ طے کرنا شروع کیا۔ اس سلسلۂ جُنبانی کی خبرشاہزادے کی ماں کوہوئی ،اس نے شاہ سے کہاکہ آپ صالحیت اور تقویٰ وزہد تو دیکھ رہے ہیں لیکن آپ کے مقابلے میں باعتبارِ عزت ومال کے وہ خاندان کمترہے۔ شاہ نے جوجواب دیا، مولانا اس کو بیان فرماتے ہیں: گفت رو ہر کہ غمِ دیں برگزید باقیٔ غمہا خدا از وے برید شاہ نے جواب دیا: دور ہو بے وقوف! جو شخص دین کا غم اختیارکرتاہے خدا اس کے تمام دنیاوی غموں کو دور کردیتاہے۔ تشریح:یعنی آخرت کا غم مثلِ عصائے موسوی علیہ السلام ہے جو جادوگروں کے سانپ بچھوؤں کو نگل گیاتھا، اسی طرح آخرت کا غم دنیا کے تمام غموں کو نگل جاوے گا۔ احقر مؤلف کے اس موقع پر ۲؍شعر ملاحظہ ہوں ؎ ہو آزاد فورًا غمِ دوجہاں سے ترا ذرۂ غم اگر ہاتھ آئے سیکڑوں غم ہیں زمانہ ساز کو اک ترا غم ہے ترے ناساز کو (اختر ) بالآخر شاہ اپنی زوجہ پر اپنی رائے کو غالب رکھنے میں کامیاب ہوگیااور شاہزادے کی شادی کردی۔طویل عرصے تک انتظارکیامگراس شاہزادے سے کوئی لڑکا نہ پیدا ہوا۔ شاہ کو فکر ہوئی کہ کیا بات ہے۔ شاہزادے کی بیوی تو بہت خوبرو اور حسین اور بے