معارف مثنوی اردو شرح مثنوی مولانا روم |
س کتاب ک |
|
پہنچنے میں گو ہوگی بے حد مشقت تو راحت بھی کیا انتہائی نہ ہوگی؟تتمۂ مضمونِ مذکور گرز صورت بگزری اے دوستاں گلستان ست گلستان ست گلستاں اے دوستو! اگرصورت پرستی کی بیماری سے تمہاری روح نجات پاجاوے توپھر حق تعالیٰ کے قرب کا باغ ہی باغ ہر طرف نظر آئے گا۔ عارفاں زانند ہر دم آمنوں کہ گزر کردند از دریائے خوں عارفین کو ایک زمانہ مجاہدہ توسخت کرنا پڑتاہے اور اپنی ان تمام خواہشاتِ نفسانیہ کا گلا گھونٹنا پڑتا ہے جونافرمانی اور ناراضگئ حق میں مبتلا کردیتی ہے لیکن ان ہی خواہشات کو خون کرنے سے حق تعالیٰ ملتے ہیں،یہی دریائے خون ہے جو درمیان میں حائل ہے، عارفین چوں کہ اس دریائے خون سے عبور کرجاتے ہیں اس وجہ سے ہردم ان کی روح کو پیغامِ امن و سکون عطاہوتارہتاہے ؎ کشتگانِ خنجرِ تسلیم را ہر زماں از غیب جانِ دیگر ست یہی وہ لوگ ہیں جو ’’لَاتَخَافُوْاہست ننزلِ خائفاں‘‘ کے مستحق ہوتے ہیں۔ یہ اللہ سے خائف ہوئے اور اللہ نے اپنے ڈر کے انعام میں سب سے بے ڈر اور بے خوف فرمادیا۔دربیانِ جوش کردنِ رحمتِ حق از نالۂ گناہ گاراں چوں بر آرند از پشیمانی حنیں عرش لرزد از انین المذنبیں