معارف مثنوی اردو شرح مثنوی مولانا روم |
س کتاب ک |
|
دربیانِ مذمتِ بدنگاہی بدنگاہی کے بیان میں یعنی عورتوں اور لڑکوں کو شہوت کی نظر سے دیکھنا۔اچانک نظر معاف ہے مگر ایک نظر اچانک کے بعد پھر دوسری بار دیکھنا حرام ہے۔ سالکے کو بد نگاہی می کند نیست سالک عیشِ باہی می کند جو سالک بدنگاہی کرتاہے وہ سالک نہیں محض عیشِ باہی کرنے والا ہے۔ ہر کہ بیند امردے نا محر مے او ز نور افتد بچاہِ مظلمے جو شخص کسی امرد (لڑکا) یا اجنبیہ عورت کو دیکھتاہے وہ نور سے نکل کر تاریکی کے کنویں میں گرجاتاہے ۔ یعنی نورِ قرب چھن جاتاہے۔ نورِ باطن از نگاہِ بد رود بدنگا ہے کور باطن می شود دل کا نور بدنگاہی سے ختم ہوجاتاہے اور بدنگاہی کرنے والا دل کا اندھا ہوجاتاہے۔ نورِ تقویٰ می برد تا شاہِ جاں بد نگاہی می برد تا مرد گاں تقویٰ کا نور خدا تک لے جاتاہے اور بدنگاہی ان مردہ لاشوں تک لے جاتی ہے جن کو گھورتاہے۔ الحذر از بد نگاہی الحذر فسق و تقویٰ ہر دو ضد اند اے پسر پرہیز کرو بدنگاہی سے کیوں کہ تقویٰ اور فسق دونوں ایک دوسرے کی ضد ہیں۔