معارف مثنوی اردو شرح مثنوی مولانا روم |
س کتاب ک |
|
بِسْمِ اللہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ نَحْمَدُہٗ وَنُصَلِّیْ عَلٰی رَسُوْلِہِ الْکَرِیْمِمقدّمۃ الکتاب احقر مؤلّف مَعارفِ مثنوی محمد اخترعفااللہ عنہ عرض کرتاہے کہ حضرت جلال الدین رومی رحمۃ اللہ علیہ اور ا ن کی مثنوی شریف سے احقر کو اس وقت سے والہانہ تعلّق وشغف ہے جب کہ احقربالغ بھی نہ ہوا تھا اور پھر حق تعالیٰ نے ایسا شیخ عطا فرمایا جو مثنوی شریف کے عاشق تھے اور فرمایاکرتے تھے کہ مثنوی شریف میں عشقِ حق کی آگ بھری ہوئی ہے اور اپنے پڑھنے والوں کے سینوں میں آگ لگا دیتی ہے۔ ہمارے حضرت پھولپوری رحمۃ اللہ علیہ بعدنمازِ عصراکثر مثنوی شریف کادرس دیتے، اور اس انداز سے کہ روح میں زلزلہ پیداہوجاتا۔ احقر کو مثنوی شریف سے بہت ہی فیض ہوااور معرفتِ الٰہیّہ نیز احقر کی دیگرکتب میں خواہ وہ ترتیب ہوں یا تالیف، مثنوی شریف ہی کا فیض غالب ہے۔ گاہ گاہ احقر کچھ منتخب اشعار مثنوی شریف سے جب حضرت پھولپوری رحمۃ اللہ علیہ کو سنایا کرتااور ان کی وہ شرح عرض کرتا جو حق تعالیٰ خاص طور پر احقر کو عطا فرماتے تو حضرت والابہت مسرور ہوتے اور احقر کی دردناک شرح سن کر آبدیدہ ہوجاتے۔ ایک دن تو ایسا ہواکہ احقر پر ایک خاص کیفیت طاری تھی،احقر حضرت والاکے پاس بعدنمازِ فجر بیٹھاتھا اور اجازت لے کر شرح مثنوی عرض کررہاتھا۔ حضرت والا کو اس قدرلطف آیا کہ سنتے سنتے گیارہ بج گئے یعنی پانچ گھنٹے تک حضرتِ اقدس احقر کی زبان سے مثنوی شریف کی دردناک شرح سنتے رہے۔ احقر پر اور حضرتِ اقدس پر عجیب کیفیت طاری رہی اور احقر بھی اشکبار رہا اور حضرت والابھی احقر کی معروضات سے اشکبارہوئے۔ اس وقت کے حسبِ حال یہ دوشعر پیش کرتاہوں ؎ وہ چشمِ ناز بھی نظر آتی ہے آج نم اب تیرا کیا خیال ہے اے انتہائے غم