معارف مثنوی اردو شرح مثنوی مولانا روم |
س کتاب ک |
|
ہر باغِ باجمال کی تازگی دلیل ہوتی ہے بارانِ مخفی پر۔رجوع الی الحکایت پھر مولانا چوہے کی حکایت کی طرف رجوع ہوتے ہیں کہ اس چوہے نے کہا مینڈک سے کہ اے بھائی!میں خاکی ہوں اور تو آبی ہے یعنی پانی کا رہنے والاہے۔میں پانی میں آنہیں سکتا،مجبور ہوں اور تو خشکی میں آسکتاہے۔ لیکن تم کو اطلاع کیسے ہو کہ میں تم سے ملاقات کا مشتاق ہوں۔ دیر تک اس پر مشورہ ہوتارہا اور انجام کار چوہے نے یہ رائے پیش کی کہ ایک لمبی ڈوری(رسی) لائی جاوے اور ایک کنارہ اس کا تمہارے پاؤں میں بندھا ہواہواور دوسرا سرامیرے پاؤں میں بندھا ہو۔ پس جب مجھ کو ملاقات کرنی ہوگی ڈوری کو ہلادوں گا تو اس طرح تمھیں پانی کے اندرڈوری کی حرکت محسوس ہوگی اور تم ندی کے کنارے آجایا کرنا۔ اس طرح ہم دونوں کی ملاقات ہوجایاکرے گی۔ مینڈک کو چوہے کی یہ بات بری معلوم ہوئی اور دل میں کہا کہ یہ خبیث مجھے اپنے قید وبند میں لاناچاہتاہے۔ ایں عجب نبود کہ کور افتد بچاہ بو العجب افتادنِ بینائے راہ یہ تعجب نہیں کہ اندھا کنویں میں گرجاوے تعجب تو یہ ہے کہ بینائے راہ کنویں میں گرجاوے۔ اس خیال کے بعدباوجود مینڈک نے اپنے قلب میں میلان پایاکہ چوہے کی درخواست قبول کرلے،عقل پر جب طبعی خواہش غالب ہوجاتی ہے تو یہ نہایت خطرناک مستقبل کا نقطۂ آغازہوتاہے۔ اب مینڈک کی ہلاکت اور تباہی کا ماجرا بیان فرماتے ہیں کہ یہ دونوں ڈوری ہلاکربار بار ملاقات کی لذت کے عادی ہوگئے تھے کہ ایک دن اس بری صحبت کاانجام سامنے آیایعنی اس خبیث چوہے کو ایک چیل اپنے چنگل میں لے اڑی اور ساتھ ہی ساتھ چوں کہ ڈوری کا دوسرا سرامینڈک کے پاؤں میں بندھاہواتھااس وجہ سے مینڈک بھی پانی کے اندرسے (کہ مسکنِ عافیت وراحت اس کا تھا) لٹکاہواچیل کے ساتھ