معارف مثنوی اردو شرح مثنوی مولانا روم |
س کتاب ک |
حکایتِ علاجِ عشقِ مجازی ایک طالبِ حق اصلاحِ نفس کے لیے ایک بزرگ کی خدمت میں حاضر ہوئے اور شیخ کے تجویز کردہ ذکراورشغل کو اہتمام سے کرنے لگے لیکن جو کنیز شیخ کے گھر سے ان کے لیے کھانا لایا کرتی تھی اس پر بار بار نگاہ ڈالنے سے ان کے دل میں اس خادمہ کا عشق پیدا ہوگیا۔ چناں چہ جب وہ کھانالے کر آتی یہ کھانے کی طرف متوجہ ہونے کے بجائے اسی کو عاشقانہ نظروں سے گھورتے رہتے۔ وہ خادمہ بھی اللہ والی تھی۔ اس کو شبہ ہوا کہ یہ شخص مجھ کو بری نگاہ سے دیکھتاہے۔ بدنگاہی کی ظلمت کا اس خادمہ کے نورانی قلب نے ادراک کرلیا اوراس نے شیخ سے عرض کیا کہ حضور!آپ کا فلاںمریدمیرے عشق میں مبتلاہوگیاہے۔ اس کو ذکراور شغل سے اب کیا نفع ہوگا؟ پہلے آپ اس کو عشقِ مجازی سے چھڑائیے۔اللہ والوں کی شان یہ ہوتی ہے کہ وہ اپنے احباب ومتعلقین وخدام کو حتی الامکان رسوا نہیں فرماتے اور یہ حضرات کسی کی بری حالت سے مایوس نہیں ہوتے کیوں کہ یہ عارف ہوتے ہیں، ان کی نظرحق تعالیٰ کی عطااور فضل پرہوتی ہے اور عطائے حق کایہ حال ہے ؎ جوش میں جو آئے دریا رحم کا گبر صد سالہ ہو فخرِِ اولیاء تم کسی کافر کو مت جانو حقیر رحمتِ حق کیا عجب ہو دستگیر خاتمہ ہونے سے پہلے ہے امید کافر و مشرک ہو پَل میں بایزید (من فیوضِ مرشدی) چناں چہ شیخ نے باوجود علم کے نہ اس مرید کو ڈانٹا اور نہ اپنے اس علم کااظہارکیا۔ البتہ دل کوفکرلاحق ہوگئی کہ اس کو عشقِ مجازی سے کس طرح نجات حاصل ہو۔