معارف مثنوی اردو شرح مثنوی مولانا روم |
س کتاب ک |
|
ہیں، صرف دعا و طلب میں دلسوزی کرنا آپ کے کرم سے سیکھ گئے ہیں، محنت مشقت کے قابل نہیں ہیں۔انتباہِ ضروری اشعارِ بالا میں جس کاہلی کا ذکر مولانا نے فرمایا ہے اس سے یہ دھوکا نہ ہونا چاہیے کہ مولانا نے اپاہج بن جانے اور دنیا سے ناکارہ ہوجانے کی تعلیم دی ہے۔ مولانا کی مراد اس کاہلی سے تفویض و توکّل اور اپنے ارادوں کو مرضیاتِ الٰہیہ میں فنا کردینا ہے جس کی ظاہری صورت عوام کے نزدیک کاہلی سمجھی جاتی ہے۔ حضرت حکیم الامت مولانا تھانوی رحمۃ اللہ علیہ نے کلیدِ مثنوی میں اس مقام کی جو وضاحت فرمائی ہے اس کو احقر نے معرفتِ الٰہیہ میں بھی نقل کردیاہے اور یہاں بھی مختصرًا نقل کرتاہوں تاکہ اہلِ نفس غلط فائدہ اس کاہلی کے لفظ سے نہ اٹھائیں۔کاہلئ اہلِ دنیا اور کاہلئ اہلِ آخرت کا فرق حضرت حکیم الامت رحمۃ اللہ علیہ ارشاد فرماتے ہیں کہ اہلِ دنیا کی کاہلی، نفس کی شرارت اور آرام طلبی کے سبب ہوتی ہے اور عارفین کی کاہلی اسبابِ دنیویہ میں انہماک نہ ہونے سے ہوتی ہے جس کا سبب نفس کی راحت پسندی نہیں بلکہ غلبۂ تفویض وتوکل و فنائے ارادہ ہوتاہے۔ کاہلی را کردہ اند ایشاں سند کارِ ایشاں را چو یزداں می کند انھوں نے تفویض و توکل کو اپنا تکیہ گاہ اس وجہ سے بنالیاہے کہ ان کا کام حق تعالیٰ کردیتے ہیں۔ کارِ یزداں را نمی بینند عام می نیا سانید از کد صبح و شام