معارف مثنوی اردو شرح مثنوی مولانا روم |
س کتاب ک |
|
کے فیوض و برکات سے یہ تمام عجوبے اور معمّے جومجالسِ صوفیائے غیر محققین میں دقائق واسرارورموزِ صدریہ سے تعبیر کیے جاتے تھے وہ سب شریعت اور وحی کے غلام بن کر امت کے سامنے درخشاں ہوگئے۔ نعرۂ مستانہ خوش می آیدم تا ابد جاناں چنیں می بایدم اے اللہ! آپ کی محبت ومعرفت کے سرمدی اور دائمی کیف و بے خودی سے سرشار ہوکر نعرۂ مستانہ لگانے کے لیے میری جانِ مضطر ہروقت مشتاق رہنا چاہتی ہے اور قیامت تک اے محبوبِ حقیقی! میری جان اسی نعمتِ دیوانگی رشکِ نعمتِ دوجہاں سے مشرف رہنا چاہتی ہے۔دربیانِ راہِ مخفی درمیانِ قلوب برائے حصولِ فیضان کہ ز دل تا دل یقیں روزن بود نے جدا و دور چوں دو تن بود ایک دل سے دوسرے دل تک بالیقین مخفی راہ ہے اگرچہ جسم دونوں کے الگ الگ اورایک دوسرے سے دور نظرآتے ہیں۔ متصل نبود سفالِ دو چراغ نورِ شاں ممزوج باشد در مساغ مضمونِ بالا کو اس تمثیلی دلیل سے بخوبی واضح کیا جاسکتاہے کہ دو چراغوں کے اجسام (دیے) علیٰحدہ علیٰحدہ ہوتے ہیں لیکن فضامیں دونوں کی روشنی مخلوط یعنی ملی جلی ہوتی ہے اور کوئی ایسی حدِّ فاصل نہیں ہوتی کہ امتیاز دونوں کی روشنی میں ظاہر کرے ۔ شیخِ نورانی ز رہ آگہہ کند نورِ را با لفظہا ہمرہ کند شیخ صاحبِ نورِ باطن طالبین کو راہِ حق بھی دکھاتاہے اور علمِ ہدایت کے ساتھ ساتھ اپنے