معارف مثنوی اردو شرح مثنوی مولانا روم |
س کتاب ک |
|
کرتارہے۔ مثلًا اگر کسی شخص کو بدنگاہی کی بیماری ہے تو اس کی صحت واصلاح کے لیے دعاکرے ، اللہ والوں سے علاج معلوم کرے اور ان سے بھی دعا کی درخواست کرے مگرکبھی پریشان ہوکر یہ نہ کہے کہ یا اللہ!یہ بیماری تومیری اچھی نہیں ہوتی، اس سے تو بہتر ہے تومجھے اندھا ہی کردے تاکہ آنکھوں سے گناہ نہ ہو۔ تو ایسی دعا جہالت اور نادانی ہوگی، خوب سمجھ لینا چاہیے۔ جہاں تک ہو بلاسے بچو اور عافیت کا سوال کرو۔ میں نے اپنے شیخ پھولپوری رحمۃ اللہ علیہ سے سناکہ حضرت منصور رحمۃ اللہ علیہ سائے کے باوجود دھوپ میں نوافل پڑھ رہے تھے، ایک صاحبِ نسبت بزرگ نے اس حالت کودیکھ کرفرمایاکہ یہ شخص کسی بڑی بلامیں گرفتارہونے والاہے۔ مطلب یہ ہے کہ جب عافیت سامنے ہوتوبَلا نہ اختیار کرو اور جب دونوں ہی طرف بلاہوتو جو بَلا آسان ہواس کو اختیار کرو: کَمَاھُوَفِی الْحَدِیْثِ: فَلْیَخْتَراَھْوَنَھُمَا ؎حکایت باز شاہی و کم پیر زن کم پیر زن: بہت سن رسیدہ بڑھیا ذکر ہے کہ ایک بار ایک بازِشاہی،شاہ سے اڑگیااورپڑوس میں ایک بوڑھی عورت کے گھر پہنچ گیا۔ اس نے اس کے بڑے بڑے ناخنوں کو اوراس کے بڑے بڑے پروں کو کاٹ دیااورکہاکہ افسوس کہ تو کس نااہل کے یہاں پڑاتھا۔ جس نے تجھے مثلِ یتیم بنا رکھاتھا۔ مولانا رومی رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں کہ جاہل اور نادان کی محبت اسی طرح کی ہوتی ہے کہ باز کے لیے ناخن اور پر وبازوہی تواس کے کمالات تھے جن سے وہ شکار کرتاہے۔ اور اس نادان کو وہی کمالات معائب نظر آئے اور باز کو اس ظالم نے بالکل ہی بے کار کردیا۔ ------------------------------