معارف مثنوی اردو شرح مثنوی مولانا روم |
س کتاب ک |
|
تاریکیوں سے نور کی طرف لے آوے اور اللہ تعالیٰ مؤمنین پر بہت مہربان ہے۔جبر واختیار جبریش گوید کہ امر ونہی لاست اختیارے نیست ایں جملہ خطا ست جبری فرقہ والا کہتاہے کہ امر ونہی سب بے کار ہے کیوں کہ ہمارے اندر اختیار ہی نہیں ہم تو مجبورِ محض ہیں۔ گر نباشد فعلِ خلق اندر میاں پس مگو کس را چرا کردی چناں اگر انسان کے افعال سب غیر اختیاری ہیں تو آپس میں کیوں یہ کہتے ہوکہ یہ کام تونے ایساکیوں کیا؟ داروگیر اور احتساب کاکائنات میں وجود ہی نہ ہوتا۔ جملۂ عالم مقر در اختیار امر و نہی ایں بیا و آں میار تمام کائنات میں اختیار کا ثبوت تمہارے اوامر ونواہی تسلیم کررہے ہیں یعنی اگر اختیار نہ ہوتا تو آپس میں کیوں یہ کہتے ہو کہ یہ کام کرلو اور یہ کام نہ کرو۔ نوٹ: مولانا نے ایک مثال یہ بھی دی ہے کہ اگر تندرست آدمی ہاتھ کی حرکت سے تمہارا شیشے کا گلاس توڑدے تو اس کو ڈانٹتے ہواور اگر رعشہ کے مریض سے جس کا ہاتھ بیماری سے کانپتارہتاہے کوئی چیز ٹوٹ جاوے تو اسے معذور سمجھتے ہو، اگر اختیار وعدم اختیار سب برابر ہے تو تم دونوں مثالوں میں کیوں فرق کرتے ہو۔خیر وشر نیست باطل ہرچہ یزداں آفرید از غضب و ز حلم و ز نضج و مکید