معارف مثنوی اردو شرح مثنوی مولانا روم |
س کتاب ک |
|
کوداخل کرنے سے بھی منع فرمایا اور حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایاکہ دنیا کی محبت تما م برائیوں کی جڑ ہے، اس شعر میں ایک مثال سے اس مضمون کو بیان فرمایا ہے کہ کشتی کے لیے پانی بہت ضروری ہے بدون اس کے اس کی روانی ناممکن ہے لیکن اگر یہی پانی اس کے اندر داخل ہوجاوے توکشتی کی ہلاکت کا سبب بھی ہے ۔ اسی طرح دنیا کو سمجھ لو کہ اس کے اندر رہنا انسانی زندگی کے لیے ضروری ہے لیکن شرط یہ ہے کہ دنیا کاپانی دل کی کشتی کے نیچے رہے یعنی اس کا تعلق مغلوب اور خداوندتعالیٰ کا تعلق غالب رہے اور اگر دنیا دل میں داخل ہوگئی توپھر دل کی ہلاکت کا سبب بن جائے گی۔خدا سے غفلت ہی موت ہے اسی وجہ سے حضور صلی اللہ علیہ وسلم کے چچا حضرت عباس رضی اللہ عنہ کو قبلِ اسلام قرآن میں مردہ فرمایاگیا یعنی جہالت اور ضلالت کی موت سے مردہ تھے پھر ایمانی حیات سے مشرف ہوکرحقیقی زندگی سے باریاب ہوئے اور حق تعالیٰ شانہٗ نے ان کی ایمانی زندگی کو زندگی سے تعبیر فرمایا۔دربیانِ فراخئ دل و در مذمت نئی روشنی کہ ظاہرش روشن و باطنش سیاہ بُوَد ایں جہاں خم است و دل چو جوئے آب ایں جہاں حجرہ است و دل شہرِ عجاب یہ دنیا باوجود اتنی وسعت کے قلبِ عارف کی وسعت کے سامنے محض ایک خم ہے،خم یعنی مٹکا محض تمثیلِ تحقیری ہے یعنی حقارت بیان کرنے کے لیے استعمال فرمایا اور دل کی کائنات ایک نہر ہے یہاں بھی یہ تمثیلِ تعظیمی ہے یعنی دل کا جہان عظیم المرتبت اور عظیم الشان ہے جس کے سامنے یہ جہان بے قدر اور بہت ہی حقیر ہے۔ آں یکے در کنجِ مسجد مست و شاد واں یکے در باغِ ترش و نامراد