معارف مثنوی اردو شرح مثنوی مولانا روم |
س کتاب ک |
|
کوزۂ چشمِ حریصاں پُر نہ شد تا صدف قانع نہ شد پُر در نہ شد حریصوں کی آنکھ کاکوزہ کبھی پرنہیں ہوا اور جب تک صدف ایک قطرے پرقناعت کرکے منہ بندنہیں کرتااس میں موتی نہیں بنتا۔ صاف خواہی چشم و عقل و سمع را بر درِ آں تو پر دہائے طمع را اگر تونورِبصارت اور نورِ عقل وسماعت کی صفائی چاہتاہے تو ان کے اوپر سے حرص و طمع کے پر دے پھاڑدے۔ بدگمانی کردن و حرص آوری کفر باشد پیشِ خوانِ مہتری بدگمانی اور حرص نہایت ناپسندیدہ اور حق تعالیٰ کے نزدیک کفرانِ نعمت ہیں۔ پیشِ چشمِ او خیالِ جاہ و زر ہمچناں باشد کہ مو اندر بصر حریص کی آنکھوں کے سامنے جاہ اور مال کاخیال اس طرح اس کوقلق اور کرب میں مبتلا رکھتاہے جس طرح کسی کی آنکھ میں بال کھٹکتاہو۔ ہر کرا جامہ ز عشقش چاک شد او ز حرص و عیبِ کلّی پاک شد جس شخص کا لباس عشقِ حق سے چاک ہوگیا وہ حرص اور جملہ عیوب سے پاک ہوگیا۔حسد عقبۂ زیں صعب تر در راہ نیست اے خنک آنکس حسد ہمراہ نیست سخت تر مشکل گھاٹی سلوک میں حسد ہے، مبارک ہے وہ شخص جس کے اندر حسد نہیں ہے۔