معارف مثنوی اردو شرح مثنوی مولانا روم |
س کتاب ک |
|
گناہِ جاہی جس گناہ کا منشاحُبِّ جاہ اور تکبر ہوتاہے مثلًا کسی کو حقیرسمجھنااوراس کی غیبت کرنا۔ اللہ والوں کی خدمت سے دل میں اپنی ذلّت محسوس کرنا یا غریبوں اور مسکینوں ، طالب علموں اور مسجد کے خدام کوبنگاہِ حقارت دیکھنا اور انھیں اپنا محتاج سمجھنایاان پر اپنی برتری کااحساس ہونا، اپنی خطاکوتسلیم نہ کرنا اور اپنے ظلم کے باوجود مظلوم سے معافی مانگنے میں شرم مانع ہونا، یہ سب جاہی گناہ کہلاتے ہیں اورچوں کہ جاہی گناہ کا اصل سبب تکبر ونخوت ہے اس لیے ایسے لوگوں کوندامت اور توبہ سے اکثرمحرومی رہتی ہے پس خلاصہ یہ نکلاکہ گناہِ جاہی اشد ہے گناہِ باہی سے۔ ان دونوں بیماریوں کی صحت مطلوب ہے اور ان کی صحت موقوف ہے اہل اللہ کی صحبت اور ان سے قوی اور صحیح تعلق پر جس کا ثمرہ اطلاعِ حالات اور اتباعِ تجویزات ہے۔ تو بداں فخر آوری کز ترس و بند چاپلوست کردم مردم روزِ چند تو اس جاہ پرفخر کرتاہے کہ مخلوق تیرے خوف اور اثر سے چند دن کے لیے تیری چاپلوسی میں مشغول ہے جیساکہ حکامِ دنیا کاحال ہے لیکن حکومت سے برطرف ہونے پران کا کیا حشر وانجام ہوتاہے۔ ہر کرا مردم سجودے می کنند ز ہر اندر جانِ او می آگنند جس شخص کے قدموں پرمخلوق بہت زیادہ استقبال اور احترام کے لیے سر جھکاتی ہے توسمجھ لوکہ اس کی جان میں تکبر اور فرعونیت کازہر گھولتی ہے۔ اے خنک آں را کہ ذلت نفسہٗ وائے آں کز سرکشی شد خوئے او اس شخص کی آنکھیں ٹھنڈی ہوں جس کا نفس ذلیل اور تابع ہو اور ہلاکت ہو اس شخص پرکہ جس کی عادت ہی سرکشی کی پڑگئی ہو۔