معارف مثنوی اردو شرح مثنوی مولانا روم |
س کتاب ک |
|
کی سرخیوں پر ان کا اعزاز واکرام نظر آجاتاہے۔یہ دراصل بادشاہ ہیں۔ بادکے معنیٰ ہوا۔ یعنی یہ شاہی ہوا پرتھی۔ اور اولیاء اللہ کی حقیقی شاہی ہوتی ہے اس لیے انھیں شاہ کہاجاتاہے۔ زندگی میں بھی اور انتقال کے بعد بھی دنیا ان کا عزت سے نام لیتی ہے۔حکایت حضرت سلیمان کے تاج کی مولانا نے واقعہ لکھاہے کہ ایک بار حضرت سلیمان علیہ السلام نے آئینہ کے سامنے اپنا تاج سر پر رکھااور وہ تاج ٹیڑھا ہوگیا،آپ نے سیدھا کیا اور وہ پھر ٹیڑھا ہوگیا اس طرح تین بار سیدھا کیا اورتاج تینوں بار ٹیڑھا ہوگیا۔ بس آپ غلبۂ خوفِ الٰہی سے سجدہ میں رونے لگے اور استغفار کرنے لگے، اس کے بعد پھر تاج رکھاتو وہ ٹیڑھا نہ ہوا۔ حضرت سلیمان علیہ السلام سمجھ گئے تھے کہ میری کوئی بات حق تعالیٰ کو پسند نہ آئی ہوگی اور میاں کی نگاہ پھر گئی ہے اس لیے یہ تاج بے جان ہونے کے باوجود مجھ سے پھرگیا ؎ نگاہِ اقربا بدلی مزاجِ دوستاں بدلا نظر اک ان کی کیا بدلی کہ کل سارا جہاں بدلا (مجذوبؒ) حضرت سلیمان علیہ السلام پیغمبر تھے اور نبی معصوم ہوتاہے اس لیے سوال دل میں آتاہے کہ کیاان سے کوئی خطاسرزد ہوئی تھی۔ جواب یہ ہے کہ خطا سرزد نہ ہوئی تھی لیکن انبیاء علیھم السلام اگر اجتہادی طور پر افضل کو چھوڑ کر فاضل اختیار کرتے ہیں تو اس پر بھی ان سے مواخذہ ہوتاہے۔ حالاں کہ وہ فعل فی نفسہٖ جائز ہوتاہے پس اسی قبیل سے کوئی بات ہوئی ہوگی۔ اب مولانا فرماتے ہیں: خاک و باد و آب و آتش بندہ اند بامن و تو مردہ باحق زندہ اند اس واقعہ میں ایک اور سوال پیدا ہوتاہے کہ تاج تو بے جان تھا پھر بے جان نے حرکت کیسے کی کہ ٹیڑھا ہوگیا۔ مولانا نے شعرِ مذکور میں اسی سوال کا جواب دیاہے کہ خاک اور ہوا،