معارف مثنوی اردو شرح مثنوی مولانا روم |
س کتاب ک |
|
تاکہ بکریوں کے چرانے سے انبیاء علیہم السلام کا صبر اور وقار ظاہر ہوجاوے۔ اسی لیے نبوت سے قبل ان کوشُبان بنایاجاتاہے یہ شبانی یعنی بکریوں کی چرواہی صبر وحلم کی عادت پیدا کرتی ہے کیوں کہ بکریاں اکثر مختلف جانب بکھرجاتی ہیں ان کے جمع رکھنے اور نگرانی میں پریشانی ہوتی ہے۔ جیساکہ اس قصّے میں حضرت موسیٰ علیہ السلام کو پریشان کیا۔ گفت سائل ہم تو نیز اے پہلواں گفت من ہم بودہ ام دہرے شباں کسی سائل نے حضورصلی اللہ علیہ وسلم سے عرض کیا کہ کیا آپ بھی اے سید الخلائق؟ فرمایاکہ ہاں میں نے بھی ایک زمانے تک بکریاں چرائی ہیں۔ لاجرم حقش دہد چو پانیے بر فرازِ چرخِ مہ روحانیے حق تعالیٰ اس چرواہی کے بعد روحانی چوپانی عطا فرماتے ہیں(یعنی فلک قمر کے اوپرروحانی چوپانی) مراد مقامِ ارشاد وتربیتِ عباد ہے۔ پس بعد ادائے حق رعیِ غنم (یعنی ریوڑ چرانے کا حق اداکرنے کے بعد) کے رعیِ روحانی(یعنی لوگوں کی روحانی راہ بری) کا منصب انبیاء علیہم السلام کو عطا فرماتے ہیں۔حکایتِ حضرت صفورا علیہا السلام حضرت موسیٰ علیہ السلام کے چہرۂ مبارک پر تجلّی طور کے بعد ایسی قوی تجلّی رہتی تھی کہ بدون نقاب آپ کے چہرے کو جو دیکھتااس کی آنکھ کی روشنی چکاچوند ہوکر ختم ہوجاتی۔ انھوں نے حق تعالیٰ سے عرض کیا کہ ایسا نقاب عطافرمائیے جو اس قوی نور کاسا تر بن جائے اور آپ کی مخلوق کی آنکھوں کو نقصان نہ پہنچے۔ ارشاد ہواکہ اپنے کمبل کا نقاب بنالوجو کوہِ طور پر آپ کے جسم پر تھااور جس نے طور کی تجلی کا تحمل کیا ہواہے اوربالیقین یہ عارف کالباس ہے اور اس کمبل کے علاوہ اے موسیٰ! اگر کوہِ قاف بھی آپ کے چہرے کی تجلی بند کرنے کو آجاوے تو وہ بھی مثل کوہِ طور ٹکڑے ٹکڑے